چور شور نہ مچائیں۔


مُلک بغدادی بحثوں میں اُلجھا دیا گیا ہے۔کرنے کے سارے کام ٹھپ ہوگئے۔ بارشیںہوئیں لیکن ہم خون سے قیمتی پانی کو سنبھال نہ سکے کہ ہمارے دامن میںجگہ جگہ چھید ہیں۔ ڈیم بھی ڈریم بن گئے۔ بجلی‘پانی ‘ گیس....پٹرول اور سی این جی ۔توانائی کی ہر شکل ناتواںہوگئی۔تھرکا کوئلہ‘بلوچستان کا سونا ‘سرحد کی گیس۔معدنی وسائل ہمارا انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ زیرزمین پٹرول تھا ہم کنویں ہی نہ کھود سکے۔کتنے ہی گیس فیلڈ مشینری نہ لگانے کے سبب بیٹھ گئے۔ روز کی اور زمینی نے ہم کو عالمی سطح کا بھکاری بنا دیا۔ گندم مانگ کر کھانی ہے‘چینی باہر سے منگوانی ہے۔پیاز بھارت سے لینا ہے۔کھلونے چین سے ہیں۔ ہزاروں فیکٹریاں بند‘کارخانے چوہوںکی بُن چکے ہیں۔مڈل کلاسیے اپنی کلاس سے کھسک کر لوئر کلاس میں چلے گئے اور ساٹھ فیصد لوئر کلاسیے فٹ پاتھوں پر خودکشیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اخبارات کے لئے اب یہ کوئی خبر نہیں رہی۔لُوٹ مار اور ڈاکے شائد ہمارے مقدر کا مستقل چیپٹر بن گئے ہیں۔دانشور بال کی کھال اتارنے اور گڑے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہیں۔کرپشن کوئی نئی کہانی تو نہیں۔معاشرے بغیر انصاف کے زندہ نہیں رہتے لیکن یہی بات اہل انصاف کے سوچنے کی بھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ فوری طور گٹروں میں پھول اگنے شروع ہوجائیں۔ ہمارے لیڈر اور رہنما اصحابہ اکرام کے تقویٰ کو اپنا لیں۔ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے۔یہ ایک نیک خواہش ہے لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ایک این۔لے کر بیٹھ گئے ہیں۔گویا پورے نظام کو بریکیں لگا دی گئی ہیں۔اب حالت یہ ہے کہ حکمران جو کبھی بھی اچھے حکمران نہیں رہے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے ہیں۔معیشت کا پہیہ جو تھوڑا بہت ”گھوں گھاں “ کر رہا تھا وہ بھی رُک گیا ہے۔اب حکمران جماعت کا سارا زور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے صرف ہورہا ہے اور اپوزیشن اور اقتدار سے باہر بیٹھی جماعتیں کیل کانٹے سے لیس ہوکر اس حکومت کو گرانے پر کم بستہ ہوگئی ہیں۔مایوسی تمام تر نقاب اتارکر سامنے ۔ یہ حکومت جائے گی کب ؟ پھر الیکشن ہوں گے ۔کب اور پھرایمانداروں اور شریفوں کی حکومت گی کب ؟ اور اگر انصاف کے اس تمام تر عمل میں بندوق والے یا گلے کاٹنے والے ‘یا ڈالروں کے عوض بندے بیچنے والے یا بلیک واٹرز .... اگر ان میںسے کوئی تو پھر ؟ اس ناانصافی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ہماری تمام سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کی جنگ میں ہلکان ہوئے جارہی ہیں ۔کبھی ایسا ہوا کہ چینی کی قیمت میں اضافہ‘ پٹرول کی لگائی گئی یا بجلی کی بندش کیخلاف کراچی سے خیبر تک کوئی ہڑتال ہوئی ہو ؟ کبھی ایسا منظر دیکھنے میں نہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کے قائدین ‘بیروزگاروں کے ساتھ مل کر تا دم مرگ بھوک ہڑتال کریں۔ دال کا بھائو طبقہ اشرافیہ کا مسئلہ ہی نہیں۔ لڑائیاں انسانی مسائل کے حوالے سے نہیںمخصوص طبقوں کے اختیارات کے حوالے سے ہورہی ہیں۔ پارلیمنٹ کا اختیار‘عدلیہ کا اختیار‘صدر کا اختیار‘اپوزیشن لیڈرکا اختیار۔ صرف عوام ایک ایسی مخلوق ہے جس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔! پاکستان اکانومی واچ ایک مانیٹرنگ ادارہ ہے ۔اس ادارہ کے تحت ہم نے جو اعدادوشمار اکٹھے کئے ہیں ان کے مطابق ججوں کی تنخواہوں ‘ پارلیمنٹرین کی مراعات ہوں‘فوج ہو یا پولیس‘افسر شاہی ہو یا سکھاشاہی ‘سب کے اخراجات ٹیکس کی صورت میں عوام سے نچوڑے جاتے ہیں۔جو چیز بھی خریدتے ہیں۔ ٹیکس کاٹا جاتا ہے اور یہ ٹیکس قومی خزانے میں جاتا ہے اور قومی خزانہ قوم پر مسلط ان سیاسی اورغیر سیاسی جتھوں کے اللوّں تللّوں کی نذر ہوجاتا ہے۔سی بی کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس کی کل کا اسی فیصد حصہ عام کی جیب سے نکالا جاتاہے۔اُمراءاور طبقہ اشرافیہ صرف بیس فیصد حصہ ڈالتا ہے۔یوں سجھ لیجئے کہ سولہ کروڑ لوگ ڈیڑھ دو لاکھ لوگوں کو پالنے کےلئے مشقت کررہے ہیں۔ یہ غریب عوام ملک کی اس لئے خیرمانگتے ہیں کہ عوام کی یہ پہلی اور پناہ گاہ ہے۔طبقہ اشرافیہ کے سارے لوگ دوہری قومیت رکھتے ہیں۔اپنے بچوں کو پہلے ہی باہر بجھوا چکے ہیں ۔پاسپورٹ اور ویزے جیبوں میں ڈالے رکھتے ہیں ۔شریف ہوں یا بدمعاش‘ سب کے اثاثے‘فلیٹس‘محل اور کاروبار بیرون ملک موجود ہیں۔پھر بھی یہی گذارش ہے کہ سکون کے ساتھ اپنی اپنی باری کاانتظار کرو۔کم از کم میں شور مت کرو! غریب کی اذیتّ میں خلل پڑتا ہے !