عدلیہ کو مقننہ اور انتظامیہ کے ماتحت رکھنے کوشش۔اے پی ایس



ججوں کی بحالی سے لیکر ان کی تعیناتی کے حوالے سے موجودہ حکمرانوں کی نیتوں میں فتور رہا ہے۔انھوں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے کہ پہلے تھو کیں اور پھر اسی کو چاٹیں۔ اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے آئینی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی تجا ویز پر ملک کے آئینی ماہرین نے آزاد عدلیہ کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے اختیارات پارلیمانی کمیٹی کو دینا عدلیہ کو بطور ادارہ مفلوج کرنے کی ایک سازش ہے۔ اگر پارلیمنٹ نے آئینی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کی ان تجاویز کی توثیق کی تو وکلاء بھی اپنا لائحہِ عمل تیار کرنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ ملک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ دونوں جماعتوں نے کبھی بھی آزاد عدلیہ کو قبول نہیں کیا۔ آزاد عدلیہ نہ تو حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہے اور نہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا تھا۔ اس کے بعد الجہاد ٹرسٹ کیس میں جب اعلی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار وضح کیا گیا تو پاکستان مسلم لیگ نون جو ا ±س وقت حزبِ اختلاف میں تھی ا ±نہوں نے اس کی حمایت کی تھی لیکن جب یہ جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیا۔یاد رہے کہ سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں پارلیمنٹ کی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد گذشتہ منگل کوایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائےگا جس کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے جبکہ سپریم کورٹ کے دو سینیئر ججوں کے علاوہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی اس کمیشن کا رکن ہوگا۔بھارت سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں ابھی تک یہ نظام رائج ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی رائے کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔اعلامیے کے مطابق یہ کمیشن ججوں کی تقرری کے لیے جو نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائے گا اس کمیٹی کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ تین چوتھائی اکثریت سے اس کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرسکتی ہے۔اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے آٹھ ارکان ہوں گے جس میں چار ارکان حکومتی بینچوں سے جبکہ چار کا تعلق حزبِ اختلاف سے ہوگا۔ یہ اقدام حکومت کی طرف سے عدلیہ کو آزاد ادارہ بنانے کی بجائے ا ±سے مقننہ اور انتظامیہ کا ماتحت ادارہ بنانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ جوڈیشل کمیشن میں وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل کی شمولیت کی وجہ سے اس کمیشن کی نوعیت پہلے ہی سیاسی ہو جاتی ہے۔ ججوں کی تقرری اگر پارلیمانی کمیٹی کرے گی تو جج بھی سیاسی ہو جائیں گے اور اپنی تقرری کے لیے ارکان پارلیمنٹ کے پیچھے بھاگتے پھریں گے۔ تمام اقدامات چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کے مترادف ہیں جو خلافِ آئین ہے۔ پہلے یہ طے ہوا تھا کہ اس کمیشن میں وکلاءنمائندوں کی تعداد زیادہ ہوگی لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔ پہلے جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ بار کو شامل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب اس کی جگہ پاکستان بار کونسل کے نمائندے کو شامل کیا گیا ہے۔ ججوں کی تقرری کا اختیار پالیمانی کمیٹی کے سپرد کرنا چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔
وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ تمام آئینی ترامیم تیئیس مارچ سے قبل مکمل ہو جائیں گی جس کے بعد ایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہو جائےگا۔یہ بات انہوں نے لاہور میں رائے ونڈ شریف فارم ہاو ¿س پر مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے برس زیتون کی شاخ لیکر ملاقات کے لیے آئے تھے اور یہ پیشکش کی تھی کہ میثاق جمہوریت کو بنیاد بناتے ہوئے مفاہمت کو آگے بڑھائیں گے اور اب دوبارہ وہ یہ پیغام لیکر آئے ہیں کہ تیئیس مارچ سے پہلے آئینی ترامیم مکمل ہو جائیں گی اور ایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہوگا۔ جو بھی عدالتی فیصلے ہوں گے ان پر آئین اور قانون کے مطابق عملدرآمد کیا جائے گا اور اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سوئس مقدمات پر عملدرآمد کے لیے آئین اور قانون کا راستہ اپنایا جائے گا۔
عوام نے الیکشن کے بعد آنے والی حکومت سے جو توقعات باندھی تھیں انہیں پورا ہونا چاہیے۔پارلیمان کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، عدالتوں کا احترام کیا جائے صدر مشرف جو آئین کاحلیہ بگاڑ گئے تھے وہ آج اسی حالت میں ہے۔
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہا تھاکہ آئین میں ججوں کی تعیناتی کا اختیار صدر کو حاصل ہے اگر پارلیمان یہ اختیار چیف جسٹس کو دینا چاہتی ہے تو وہ ترمیم کرلے حکومت عمل کرے گی۔ ملک بھر کے عوام ،میڈیا اور وکلاءحکومت کو متنبہ کرتے رہے ہیںکہ وہ عدلیہ سے محاذ آرائی سے باز رہے ورنہ اس کے غلط نتائج نکلیں گے۔اے پی ایس