قانون کی حکمرانی۔چودھری احسن پر یمی


سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احمد ریاض شیخ کو جیل بھیج دیا جبکہ این آر او کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے نیب کو آج یعنی اسی روز تک مہلت دیتے ہوئے سیکرٹری قانون و انصاف کو حکم دیا ہے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف سیکشن 9 کے تحت کارروائی ، پراسیکیوٹر جنرل نیب کو ہٹانے اور نیب عدالتوں میں اضافے کے حوالے سے اقدامات بارے تفصیلی رپورٹ پیش کریں ۔ وفاقی سیکرٹریز ڈائریکٹر جنرل نیب چیئر مین وقائمقام چیئر مین نیب کے خلاف جانے سے توہین عدالت کے نوٹسز کی سماعت گزشتہ منگل تک ملتوی کر دی گئی ۔ سپریم کورٹ کا سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسماعیل قریشی سیکرٹری داخلہ چیئر مین نیب اور ایف آئی اے حکام کی طرف سے وضاحتی رپورٹس پر عدم اطمینان، مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں جسٹس میاں شاکر اللہ جان، جسٹس چوہدری اعجاز احمد ، جسٹس طارق پرویز، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے پر مشتمل 6 رکنی بینچ نے کی ۔ سماعت شروع ہوئی تو نیب کے چیئر مین نوید احسن نے موقف اختیار کیا کہ انہیں عدالت کا نوٹس رات کو دیر سے ملا اس لیے 15منٹ کاوقت دیا جائے تاکہ جواب عدالت میں جمع کراسکوں جس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک منٹ کو وقت بھی نہیں دیا جا سکتا ۔ آپ لوگوں نے عدالت کو مذاق بنا رکھا ہے ۔16 دسمبر 2009ءسے عدالت کا فیصلہ سڑکوں پر پھر رہا ہے اور آپ لوگ اس پر عمل نہیں کروا رہے ہم سختی کرنے کے لیے مجبور ہو چکے ہیں۔ آپ لوگوں کو عدالتوں کا احترام نہیں آتا۔ چیف جسٹس نے چیئر مین نیب سے کہا کہ عدالت کا فیصلہ پڑھتے جائیں اور بتاتے جائیں کہ آپ نے کس حوالے سے کونسے اقدامات کیے ہیں جس پر چیئر مین نیب کا کہنا تھا کہ انہیں دو دن دیئے جائیں وہ مکمل جواب بنا کر عدالت میں پیش کر دیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو ایک منٹ بھی نہیں دیں گے ۔عدالت کے اندر ہمیں بتایا جائے کہ اب تک آپ نے کتنے مقدمات ری اوپن کروائے ہیں۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ کوئی چیز ہے جو آپ کو عدالتی فیصلے میں سمجھ نہیں آتی وہ کونسا لفظ تھا جس کا مطلب آپ کو نہیں آیا اور آپ فیصلے پر عمل کرنے سے قاصر رہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ آ جانے کے بعد آپ کو کسی کے احکامات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا ہر ا ±س شخص کے خلاف ایکشن لیا تھا جس نے این آر او سے فائدہ لینا چاہے وہ سپریم کورٹ کا کوئی جج کیوں نہ ہو آپ نے عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد نہ کر کے توہین عدالت کی ہے جس پر چیئر مین نیب کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کو مقدمات میں استثنیٰ حاصل ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے کس نے استثنیٰ مانگا ہے جس کو استثنیٰ چاہیے ہو گا۔ وہ عدالت کے پاس آئے گا ۔ اس موقع پر قائمقام چیئر مین نیب عرفان ندیم نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے ملک قیوم کے خلاف ریفرنس پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیا اور لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں موجود سوئز عدالتوں کے حوالے سے ریکارڈ کو قبضہ میں لے کر سیل کر دیا گیا ہے جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ اگر ان ریکارڈ پر مشتمل بکسوں کی سیل اتار کر ریکارڈ نکال لیا جاے اور دوبارہ سیل لگا دیئے جائیں تو آپ اس حوالے سے کیا وضاحت کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے سوئز مقدمات کے حوالے سے اب تک ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا عدالت نے کہا کہ چیئر مین اور قائمقام چیئر مین نیب کو جیل جانا ہو گا۔ چیئر مین نیب نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی تھی اور پراسیکیوٹر جنرل نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ این آر او پر فیصلہ آ چکا ہے اور مقدمات خود بخود کھل جائیں گے ۔ عدالت نے چیئر مین نیب نوید احسن سے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا انتظامیہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے انکار کر سکتی ہے لیکن آپ نے مشورہ اس پر اسیکیوٹر جنرل سے لیا جس کو ہٹانے کا حکم عدالت نے دیا تھا ۔ آپ بتائیں کہ پراسیکیوٹر جنرل کو ہٹانے سے آپ کو کس اتھارٹی نے روکا ؟ چیئر مین نیب نوید احسن نے بتایا کہ ملک بھر میں 167 مقدمات ریوایٹو کرائے گئے ہیں جبکہ 21 انکوائریاں کی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ آپ لوگوں نے مقدمات کو اوپن نہیں کروائے لیکن عدالت کو بتایا جائے کہ سوئز عدالتوں میں موجود 6 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم اب تک واپس کیوں نہیں لائی گئی۔ چیئر مین نیب نوید احسن نے موقف اختیار کیا کہ ملک قیوم کے خلاف ایکشن حکومت نے لینا تھا یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے جس پرجسٹس خلیل الرحمن رمدے کا کہنا تھا کہ آپ ایکشن کیوں نہیں لے سکتے ۔ آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے ۔ آپ کی طرف سے قائم مقدمات کی سماعت سوئز عدالتوں میں جا ری تھی جس کو ملک قیوم نے خط کے ذریعے رکوایا ۔ آپ اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے سکتے تھے ۔جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے سے درست اور غلط کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکام نے اس لیے اقدامات نہیں کیے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے دیا ہے ۔ اب عدالت نہیں پوچھے گی ۔ اب ایسا ممکن نہیں ہم آپ کو جیل بھیج رہے ہیں پتا چل جائے گا کہ عدالتیں اپنے فیصلوں پر کیسے عمل درآمد کرا سکتی ہیں۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ سیل کو عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کے حوالے سے بھیجی جانے والی رپورٹس بارے بھی استفسار کیا جس پر قائمقام چیئرمین نیب عرفان ندیم نے بتایا کہ رپورٹس مانیٹرنگ سیل کو بھیجی جا رہی ہیں۔ اس موقع پرعدالت سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے جواب طلب کیا تو انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ریاض شیخ کی سزا بارے انہیں علم نہیں تھا اس کے لیے وہ حلف اٹھانے کو تیار ہیں جس پر عدالت نے ان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا ۔سیکرٹری داخلہ قمر زمان نے عدالت کو بتایا کہ احمد ریاض شیخ کو5ستمبر 2001ئ کی معطل پوزیشن پر پہنچا دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے انھوں نے تین نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں جن میںسے دو نوٹیفکیشن ان کو دیئے جانے والے پروموشن کو ختم کرنے اور تیسرے نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں معطل کیا گیا ہے ۔ عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ منیر احمد اور ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ راجہ احسن کی رپورٹس کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا ۔ اس موقع پر احمد ریاض شیخ کے وکیل رشید اے رضوی نے عدالت سے کہا کہ انہیں دو ہفتوں کا وقت دیا جائے کیونکہ دیگر مقدمات میں دو ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو بلیک میل نہ کیا جائے یہ لوگ معصوم نہیں ہیں جس کو بچانے کے لیے آپ کوششیں کر رہے ہیں جس پر رشید اے رضوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ اس کیس کی پیروی سے دستبردار ہو رہے ہیں اس کے بعد احمد ریاض شیخ نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے غلطی کی تھی تاہم میری وجہ سے 5 سیکرٹریز کی توہین ہو رہی ہے ۔شیخ ریاض کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے بہت سے لوگ سزا بھگت رہے ہیں ۔ میں عدالت سے معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں ۔عدالت نے احمد ریاض کے خلاف لاہور میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے 5 سال قید اور 2 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ۔ عدالت کے حکم پر انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا اور عدالت نے حکم دیا کہ شیخ کی جائیداد کی ضبطی اور انہیں واپس کیے گئے زیورات بھی برآمد کیے جائیں ۔ عدالت نے چیئر مین نیب کو تین دن میں ان سے ریکوری مکمل کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس موقع پر سیکرٹری وزارت داخلہ کی طرف سے ریاض شیخ کے خلاف وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن پڑھ کر سنائے تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری نہ کیے جائیں ۔ سماعت کے دوران سیکرٹری قانون وانصاف جسٹس (ر)عاقل مرزا نے عدالت کو بتایا عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ضرور ہو گا لیکن اس میں دیر ہو سکتی ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سیکرٹری قانون سے استفسار کیا کہ ملک قیوم کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور عدالت عظمیٰ نے پراسکیوٹر جنرل نیب کو ہٹانے کا بھی حکم دیا تھا اور نیب عدالتوں میں اضافے کے حوالے سے بھی حکم پر عمل نہیں کیا گیا جس پر سیکرٹری قانون عاقل مرزا کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک قیوم کے خلاف ریفرنس پاکستان بار کو نسل کو بھیج دیا ہے جس پر جسٹس رمدے کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل سے وہ ریفرنس آپ کو واپس بھیج دیا ہے تو عاقل مرزا کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی تک موصول نہیں ہوا۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب عدالتوں میں اضافے کے حوالے سے ہائی کورٹس کولکھا تھا لیکن تمام صوبائی ہائی کورٹس نے کہا ہے کہ صوبوں میں نیب عدالتوں کی تعداد کافی ہے ۔ صرف لاہور ہائی کورٹ نے ملتان میں ایک نیب عدالت کا مطالبہ کیا ہے جس کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عدالت نے سیکرٹری قانون کو ہدایت کی کہ آج بدھ تک بتایا جائے کہ ملک قیوم کے خلاف کہاں ریفرنس دائر کیا ہے چیف جسٹس نے عاقل مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بتا دیں کہ ملک قیوم کے خلاف سیکشن 9 کے تحت کارروائی ہو گی اور یہ ریفرنس دائر ہونا چاہیے اور وزارت قانون و انصاف کو نیب عدالتوں کے حوالے سے ہائی کورٹس کی طرف سے موصول ہونے والے جوابات بھی عدالت میں جمع کرائے جائیں ۔ عدالت نے چیئر مین نیب کی جانب سے این آر او پر عمل درآمد کرانے کی تحریری یقین دہانی پر انہیں چوبیس گھنٹے آج بدھ تک کی مہلت دے دی ۔ عدالت نے قرار دیا کہ توہین عدالت کے نوٹسز کی سماعت آج ہو گی۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات فوزیہ وہاب کو ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے احمد ریاض شیخ کی گرفتاری کو بد قسمت واقعہ قرار دینے پر سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت نوٹس جاری ہونے کا امکان ہے ۔ فوزیہ وہا ب نے گزشتہ منگل کو سپریم کورٹ کی جانب سے ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے احمد ریاض شیخ کوگرفتار کر کے جیل بھجوانے کا حکم دینے کے حوالے سے اپنی رد عمل میں کہا ہے کہ احمد ریاض شیخ ایک سرکاری ملازم ہے اور انھوں نے 5 سال قید جیل میں گزاری ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی گرفتاری اور جیل بھجوانے کا حکم ایک بد قسمت واقعہ ہے اس کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔احمد ریاض شیخ کی گرفتاری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی رد عمل دینا حکومت یا ترجمان حکومت کا کام ہے جبکہ فوزیہ وہاب حکومتی ترجمان نہیں اور نہ ہی سزا یافتہ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے احمد ریاض شیخ پی پی پی کے رہنما ہیں بلکہ پی پی پی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں اور انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو رد عمل دیا ہے ان پر سپریم کورٹ فوزیہ وہاب کو توہین عدالت نوٹس جاری کر سکتی ہے ۔ادھر پی پی پی کے رہنما اور وزیر مملکت نبیل گبول نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا احمدریاض شیخ ایک سرکاری ملازم ہے اور سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ قانون کے دائر ے میں رہ کر دیا ہے ۔ وزیر مملکت نبیل گبول نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر موثر رد عمل دیتے ہوئے ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔اے پی ایس