زمین جھنجھوڑ دینے والا المناک واقعہ۔اے پی ایس


صدر آصف علی زرداری نے کہاہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ نے ہمارے خدشات اور موقف کی تصدیق کر دی ہے۔ انتقام پر یقین نہیں رکھتے بے نظیر بھٹو شہید کے قاتل ضرور بے نقاب ہوں گے جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ 1973ء کے آئین کی بحالی کے نتیجہ میں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کے مشن کی تکمیل ہوئی ہے ۔ثابت ہواہے پارلیمنٹ خود مختار اور عوام کی ترجمان ہے۔ان خیالات کا اظہار صدر ، وزیراعظم نے گزشتہ جمعہ کووزیراعظم ہاو ¿س میں اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں دئیے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود سیاستدان جمہوریت پر متفق ہیں انہوں نے کہاکہ ہم انتقام پر یقین نہیں رکھتے جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے ۔ملک کا صدر جمہوری سوچ پر یقین رکھتا ہے انہوںنے کہاکہ جمہوریت کیلئے ہم سے زیادہ قربانیاں کسی نے نہیں دیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی رپورٹ نے ہمارے خدشات او رموقف کی تصدیق کر دی ہے انہوں نے تمام اراکین پارلیمنٹ کو اٹھارہویں ترمیم کی متفقہ منظوری پر مبارک باد دی صدر مملکت نے پارلیمانی آئینی کمیٹی کے اراکین کو بھی مبارک باد دی ۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجہ میں وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کو درست راستے پر گامزن کر دیا گیاہے۔ جمہوریت کے شہداءکی روحوں کو تسکین ملی ہے ۔جبکہ برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے حالات و حقائق جاننے والی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واردات سے قبل خفیہ ایجنسیاں غفلت کی مرتکب ہوئیں اور واردات کے بعد تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالتی رہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس کے ایک افسر نے کمیشن کو بتایا کہ جاسوس اداروں کے اہلکار موقع پر موجود تھے اور ان کے پاس جائے واردات سے شواہد اکٹھے کرنے کی پولیس سے بہتر اور جدید آلات تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ نہیں کیا اور جائے واردات کو دھو دیا گیا جس سے ہزاروں شواہد غائب کردی گئیں جن میں انسانی اعضا، دو پستول، چلی ہوئی گولیاں اور بینظیر بھٹو کی تباہ شدہ گاڑی بھی شامل تھی۔رپورٹ کے صفحہ نمبر 30 پر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو کو ہسپتال لے جانے کے بعد آئی ایس آئی کے ایک افسر کرنل جہانگیر اختر وہاں موجود رہے اور ڈاکٹروں سے رابطے کرتے رہے۔ آئی ایس آئی کے اس کرنل نے اپنے موبائل فون پر سینئرڈاکٹر پروفیسر مصدق خان کی آئی ایس آئی کے نائب ڈائریکٹر جنرل سے بات کرائی۔ جب کمیشن نے آئی ایس آئی کے اس نائب ڈی جی میجر جنرل نصرت نعیم سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے پہلے تو اس سے انکار کر دیا لیکن پھر بعد میں اعتراف کیا کہ انہوں نے اس لیے فون کیا تھا تاکہ وہ اپنے اعلی افسران کو مطلع کرنے سے پہلے ڈاکٹر مصدق سے خود یہ جان سکیں کہ بینظیر بھٹو کا انتقال ہو چکا ہے یو این کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے ایک گھنٹے چالیس منٹ کے بعد جائے واردات پانی سے دھو دی گئی جس کی مثال دنیا میں ہونے والے جرائم میں مشکل سے ملتی ہے۔کمیشن نے کہا ہے کہ جائے واردات پر موجود آگ بجھانے والے عملے کو حکم رالپنڈی کے ایس پی خرم شہزاد نے دیا تھا جسے سی پی او پنڈی سعود عزیز نے دی تھی۔ کمیشن نے کئی سینئر پاکستانی پولیس افسران کے کمیشن کے سامنے بیانات کے حوالے سے بینظیر بھٹو کے قتل کی جائے واردات کو دھو ڈالنے کو مجرمانہ غفلت قرار دیا ہے تاہم کمیشن نے پولیس افسران کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل میں شعوری کوتاہی کو انٹیلجنس ایجنیسوں کا ڈر قرار دیا ہے۔رپورٹ کے صفحہ نمبر 33 میں یہ کہا گیا ہے کہ کمیشن کو ایک شخص نے نام نہ ظاہرکرنے کے شرط پر بتایا تھا کہ ان کو ایس ایس پی سعود عزیز نے رازداری میں کہا تھا کہ کہ میجر جنرل ندیم اعجاز نے ان کو ہدایت دی تھی کہ جائے واردات کو پانی سے دھلوا دیں۔ اس کے علاوہ تین پولیس اہلکار سمیت کئی افراد نے بھی کمیشن کو بتایا کہ ’سب کو معلوم ہے کہ یہ حکم کس نے دیا‘ تاہم ان افراد نے اس کی وضاحت کرنے سے گریز کیا اور خاصے ڈرے ہوئے تھے۔رپورٹ کے مطابق ہسپتال میں آئی ایس آئی کے افسر موجود تھے اور رپورٹ کے صفحہ نمبر 30 پر بتایا گیا ہے کہ بینظیر بھٹو کو ہسپتال لے جانے کے بعد آئی ایس آئی کے ایک افسر کرنل جہانگیر اختر وہاں موجود رہے اور ڈاکٹروں سےرابطے کرتے رہے۔ آئی ایس آئی کے اس کرنل نے اپنے موبائل فون پر سینئرڈاکٹر پروفیسر مصدق خان کی آئی ایس آئی کے نائب ڈائریکٹر جنرل سے بات کرائی۔ جب کمیشن نے آئی ایس آئی کے اس نائب ڈی جی میجر جنرل نصرت نعیم سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے پہلے تو اس سے انکار کر دیا لیکن پھر بعد میں اعتراف کیا کہ انہوں نے اس لیے فون کیا تھا تاکہ وہ اپنے اعلی افسران کو مطلع کرنے سے پہلے ڈاکٹر مصدق سے خود یہ جان سکیں کہ بینظیر بھٹو کا انتقال ہو چکا ہے۔کمیشن نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کی اسٹیبلشمینٹ اور انٹیلیجنس اینجنسیوں کو بینظیر بھٹو کی حفاظت کرنے میں ناکام قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے قتل کی تحقیقات کو بھی جان بوجھ کر ناکام بنایا۔کمیشن نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور حکومت کی اسٹیبلشمینٹ اور انٹیلیجنس اینجنسیوں کو بینظیر بھٹو کی حفاظت کرنے میں ناکام قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے قتل کی تحقیقات کو بھی جان بوجھ کر ناکام بنایا۔کمیشن نے جائے واردات پر سب سے پہلے آئی ایس ائی کی موجودگی ہونے، بینظیر بھٹو کی تباہ شدہ گاڑی کو وہاں سے لے جانے اور بعد میں تھانے پر اسی گاڑی سے انکی جوتی کو ہٹوا دینا اور پھر جوتی کو گاڑی میں رکھوا دینے کو بھی شواہد کے قابل اعتبار ہونے میں مداخلت قرار دیا ہے۔کمیشن نے بینظیر بھٹو کی تباہ شدہ گاڑی تک پولیس تفتیش کاروں کی راہ میں آئی ایس آئی اور آئی بی سمیت انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے شدید رکاوٹیں ڈالنے کو بھی متنازعہ اور مشکوک قرار دیا ہے۔کمیشن نے بینظیر بھٹو کی سیکیورٹی پر مامور ذمہ داروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا۔ کمیشن نے واضح طور پر اس پر سخت سوال اٹھائے کہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ستائیس دسمبر کو حملے کے بعد بینظیر بھٹو کے لیے موجود بلٹ پروف مرسیڈیز کے بجائے انہیں ایک خراب گاڑی میں ہسپتال روانہ کیا گیا۔تاہم کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ’ہیروازم‘ یعنی بہادری کو سراہا ہے جنہوں نے بینظیر بھٹو کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔کمیشن نے کئی سینئر پاکستانی پولیس افسران کے کمشین کے سامنے بیانات کے جوالے سے بینظیر بھٹو کے قتل کی جائے واردات کو دھو ڈالنے کو مجرمانہ غفلت قرار دیا ہے تاہم کمیشن نے پولیس افسران کی طرف سے بینظیر بھٹو کے قتل میں شعوری کوتاہی کو انٹیلجنس ایجنیسوں کا ڈر قرار دیا ہے۔کمیشن نے بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ کروانے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے سات گھنٹوں بعد تک یعنی چکلالہ ائیر پورٹ پر انکی میت آصف علی زرداری کے ہاتھوں وصول کرنے کے وقت تک راولپنڈی جنرل ہسپتال میں ان کا پوسٹ مارٹم نہیں کروایا گیا۔کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بینظیر بھٹو کی سیکورٹی کے انتظامات کو انتہائی ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بینظییر بھٹو کو خطرات میں چھوڑ دیا گیا اور حملے کے بعد ان کو اسی گاڑی میں منتقل کیا گیا جسے نقصان پہنچا ہوا تھا جس میں بینظیر بھٹو ہسپتال پہنچائے جانے کے قابل نہیں تھیں جبکہ انکے قافلے میں انکی بلٹ پروف مرسیڈیز غیرذمہ دارانہ طور پر کافی آگے نکل چکی تھی۔کمیشن نے پاکستانی سیاست میں جاسوسی یا انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار کا ہر پہلو سے جائزہ لیا ہے اور کہا ہے کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلجنس ایجنیسوں کا بینظیر بھٹو کی وطن واپسی سے لے کر انتخابات کروانے تک پاکستان کی سیاست میں مرکزی کردار رہا ہے اور یہ ایجنسیاں انتخابات کروانے سے لے کر بینظیر بھٹو کی مشرف حکومت سے مذاکرات تک شامل رہی تھیں۔کمیشن نے کہا ہے کہ جولائی دو ہزار سات میں دبئی میں سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد بینظیر بھٹو کی طرف سے انتخابات میں انٹیلجینس ایجینسوں کی عدم مداخلت کا جائزہ لینے کے لیے بینظیر بھٹو نے اپنا ایک ایلچ?ی پاکستان میں انتخابی فہرستوں کے شفاف ہونے کا جائزہ لنے کیلیے بھیجا تھا۔ اس ایلچی کے دورے کا بندوبست تب جنرل کیانی نے خود کیا تھا۔ کمیشن نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی سے لیکر انتخابات کروانے تک انٹیلجنس ایجینسوں نے مرکزی کردار اد کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جاسوسی ایجنسیاں نہ فقط دہشتگردوں کے فون ٹیپ کیا کرتی ہیں بلکہ سیاستانوں اور صحافیوں کے بھی جو کہ بغیر کسی عدالتی احکامات کے غیر قانونی اور بےجا ہے۔کمیشن نے بینظیر بھٹو کے قتل کے چند دنوں بعد مشرف حکومت کے ڈی جی داخلہ برگیڈئر چیمہ کی طرف سے پریس کانفرنس کرکے انکی موت گآڑی کے سر میں ہینڈل لگنے سے اور اسکے پیچھے بیت اللہ مسعود کے ہاتھ ہونے کو بتانے کو بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کو خراب کرنے اور روکنے کی کوشش قراردیا۔کمیشن نے کہا ہے کہ سب سے زیادہ جن پیچیدہ سوالات کے جوابات رہتے ہیں ان میں سوال یہ ہے کہ ہجوم کو بنیظیر بھٹو کی گاڑی کے گرد جمع ہونے کی اجازت کیوں دی گئی؟ بینظیر کی موت کی وجہ بندوق کی گولیاں تھیں یا بم دھماکہ؟ پوسٹ مارٹم ہسپتال میں کیوں نہیں کیا گیا؟ اور جائے واردات کو واقعے کے دو گھنٹوں کے اندر کیوں دھو ڈالا گیا ؟کمیشن نے کہا ہے کہ بنظیر بھٹو پر خودکش حملے کا ساڑھے پندرہ سالہ ملزم صرف اکیلا نہیں ہوسکتا۔کمیشن کے سربراہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کمیشن نے سعودی عرب کی انٹیلجنس کے سربراہ س سے انٹرویو کرنے کی درخواست کی تھی جو انہوں نے مسترد کردی جبکہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس نے بھی اپنی مصرفیات کی وجہ سے انٹرویو دینے سے معذرت کردی تاہم انہوں نے کہا کہ انہوں نے دبئ? کے وزیر خارجہ سے بات چیت کی تھی ۔کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان کے عوام وسیع طور پر بینظییر بھٹو کے قتل کو ایک زمین جھنجھوڑ دینے والا المناک واقعہ سمجھتے ہیں اور ابھی صدمے سے نہیں نکل سکے۔کمیشن نے بینظیر بھٹو کے قتل کے چند دنوں بعد مشرف حکومت کے مشیر داخلہ برگیڈئر چیمہ کی طرف سے پریس کانفرنس کرکے انکی موت گاڑی کے سر میں ہینڈل لگنے سے اور اسکے پیچھے بیت اللہ محسود کے ہاتھ ہونے کو بتانے کو بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کو خراب کرنے اور روکنے کی کوشش قراردیا۔کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ کسی شحص یا ادارے کو مجرم ٹھہرانا کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا لیکن یہ کام پاکستانی حکومت کا ہے کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کے ذمہ واران اور منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ جبکہ سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری ا ±س وقت کی نگران حکومت پر تو ہوسکتی ہے جنرل پرویز مشرف پر نہیں۔دوسری جانب صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حکومت رپورٹ کا بغور جائزہ لینے کے بعد تبصرہ کرے گی۔ تاہم اس وقت کی نگران حکومت کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حامد نواز نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ راشد قریشی بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ستائیس دسمبر سنہ دو ہزار سات کو راولپنڈی میں جب یہ واقعہ رونما ہوا تو جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ چکے تھے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کی کمان سنبھال چکے تھے۔راشد قریشی نے کہا ’اس واقعہ سے پہلے ا ±س وقت کے صدر پرویز مشرف اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز پر بھی خودکش حملے ہوچکے تھے تو کیا ان حملوں کی ذمہ داری بھی پرویز مشرف پر ڈال دی جائے۔‘’اگر برطانیہ میں کوئی شخص قتل ہوجائے تو ا ±س کی ذمہ داری ملکہ برطانیہ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔‘اقوام متحدہ کی ٹیم کو ساٹھ کروڑ روپے سرکاری خزانے سے دیئے گئے جنہوں نے اس واقعہ کے متعلق وہی رپورٹ دی جو دو سال قبل پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے دی تھی۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی ٹیم کو ساٹھ کروڑ روپے سرکاری خزانے سے دیئے گئے جنہوں نے اس واقعہ کے متعلق وہی رپورٹ دی جو دو سال قبل پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے دی تھی یعنی سابق وزیر اعظم کے قتل میں شدت پسند تنظیمیں ملوث ہیں۔بینظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے ا ±س وقت بینظیر بھٹو کے سیکورٹی ایڈوائزر اور موجودہ وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے لکھے گیے خطوط سے متعلق سابق صدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ خط وکتابت ا ±س وقت کے نگران وزیر داخلہ حامد نواز سے ہی ہوئی تھی۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ حکومت رپورٹ کا بغور جائزہ لینے کے بعد تبصرہ کرے گی۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو صدارتی ترجمان نے بتایا کہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ہی حکومت ایک تفصیلی ردِ عمل دے گی۔سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا ’حکومت اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہے اور ہم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘دوسری جانب بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت نگران وزیر داخلہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل حامد نواز نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔یہ درست ہے کہ میں اس وقت وزیر داخلہ تھا لیکن میں اس رپورٹ پر تبصرہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہویے انہوں نے کہا ’یہ درست ہے کہ میں اس وقت وزیر داخلہ تھا لیکن میں اس رپورٹ پر تبصرہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔‘یاد رہے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔رپورٹ میں صدر مشرف کی اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہی تھی۔سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اگر بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کی ہوتی تو ان کو قتل ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔باون صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صدر مشرف کی اس وقت کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہی تھی۔کمیشن کے مطابق یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ کیوں ان تمام افراد، گروہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے حصوں کی تفتیش نہیں کی گئی جن سے بینظیر بھٹو کی جان کو خطرات لاحق تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے جنرل مشرف کو اپنے خط میں آگاہ کیا تھا۔اقوم متحدہ کے بینظیر بھٹو کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے گزشتہ جمعرات کی شام اقوام متحدہ کی عمارت میں رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم کو جس طرح کے خطرات تھے اور جن کا علم مشرف حکومت کو تھا ان کی مناسبت سے سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان میں کئی عناصر سے سنگین خطرات لاحق تھے جن میں القاعدہ، طالبان اور مقامی جہادی گروپ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تفتیش کی توجہ صرف نچلی سطح کے کارکنوں تک ہی محدود رہی ہے۔ کمیشن اس بات پر پریشان ہے کہ بیت اللہ محسود، القاعدہ یا کسی تنظیم یا فرد کے بارے میں بھی کوئی خاص تفتیش نہیں کی گئی جو ممکنہ طور پر اس قتل یا اس کی منصوبہ بندی میں براہ راست یا بلواسطہ ملوث رہا ہو۔تفتیش کاروں نے اس امر کو بھی سرے سے مسترد کردیا کہ اس قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے عناصر شامل ہوسکتے ہیں، بشمول ان تین افراد کے جن کے نام بینظیر بھٹو نے مشرف کو لکھے گئے خط میں خود لیے تھے۔ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ مشرف دور کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، انٹیلیجنس ایجنسیاں بینظیر بھٹو کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور اس طرح کے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کیے گئے جس طرح کے انتظامات کی ضرورت تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے اور اسے دھو دیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنا اعلیٰ سطحی احکامات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ہیرالڈو مونوز نے کہا کہ کمیشن کو یقین ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پولیس اہلکاروں کی جانب درست اقدامات کرنے میں’ناکامی’ زیادہ تر جان بوجھ کرتھی۔ بعض صورتوں میں اس ناکامی کی وجہ وہ غیر یقینیی کی صورتحال تھی جو اس تفتیش میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے بہت زیادہ ملوث ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان افسران کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اقدامات کریں۔ ہیرالڈو منوز میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کہا جائے کہ صدر آصف زرداری یا ان کے خاندان کا کوئی فرد اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے حسین ہارون نے رپورٹ کے متعلق کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ رپورٹ پاکستان حکومت کو بھیج رہے ہیں اور حکومت ہی اس پر ردِ عمل دے گی۔یہ رپورٹ یکم اپریل کو پیش کی جانی تھی لیکن صدر آصف علی زرداری کی درخواست اسے پندرہ دن کے لیے مو ¿خر کر دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی کمیشن نے اقوام متحدہ میں چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا۔اس کمیشن نے رواں سال فروری کے آخری ہفتے میں پاکستان کا تین روزہ آخری دورہ مکمل کیا تھا۔ اس دورے میں کمیشن کے سربراہ اور اراکین نے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیئر حکومتی اہلکاروں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتیں کیں۔اس کے علاوہ اس کمیشن کے سربراہ نے پاکستان کے تین دورے کیے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا عملہ تحقیقاتی عمل شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی پاکستان میں موجود تھا۔خیال رہے کہ بینظیر بھٹو کو دسمبر دو ہزار سات میں راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیرِ اعظم سید یوسف گیلانی نے قومی اسمبلی کے اراکین سے کہا تھا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو قتل کی تحقیقات سے متعلق اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کا تحمل سے انتظار کریں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزبِ اختلاف کے رکن رضا حیات ہیراج کے نکتہ اعتراض پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا متعلقہ شخص یعنی کہ وزیرِ داخلہ کو آنے دیں جو ترکی کے صدر عبداللہ گل کے ساتھ مصروف ہیں اور وہ ایوان کو جواب دیں گے۔ ±ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر اقوامِ متحدہ سے بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا تھا لہذا وہ کس طرح اس میں تاخیر چاہیں گے۔’بے نظیر بھٹو ہماری رہنما ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی جمہوریت، عوام اور پاکستان کے لیے قربان کی۔‘وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ جب متعلقہ شخص ایوان میں موجود نہ ہو تو اس مسئلے پر بات نہیں کی جانی چاہیے۔اس ایوان اور چاروں صوبائی اسمبلیوں نے متفقہ طور پر اقوامِ متحدہ سے بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا تھا لہذا وہ کس طرح اس میں تاخیر چاہیں گے۔رضا حیات ہیراج نے کہا ’اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اکتیس مارچ کو سیکریٹری جنرل کو پیش کی جانی تھی لیکن ان تحقیقات کو جن پر بڑی رقم خرچ کی گئی ہے اب حکومتِ پاکستان کے کہنے پر ملتوی کر دی گیا ہے۔‘ا ±ن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کو بھی بے نظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار ہے کیونکہ انہیں ’قاتل مسلم لیگ‘ کے نام بھی دیے گئے تھے۔وزیرِ تجارت مخدوم امین فہیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اگر ’مسلم لیگ قاف قتل کے الزام سے بری ہوگئی‘ تو پھر ان سے ان لوگوں کو معافی مانگنی ہوگی جنہوں نے ان پر الزامات عائد کیے تھے۔وفاقی وزیرِ پٹرولیم و قدرتی وسائل سید نوید قمر نے کہا کہ بے نظیر قتل کی تحقیقاتی رپورٹ اپریل میں پوری دنیا کے سامنے آ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کی تاخیر کی درخواست اس لیے کی گئی ہے تاکہ اس میں جن عناصر کی نشاندہی کی جانی ہے وہ قبل از وقت اس کا توڑ نہ کر سکیں۔ ا ±ن کا موقف تھا کہ اس رپورٹ پر پاکستان کے مستقبل کے لائحہِ عمل کا دارومدار ہے۔اے پی ایس