افغان تنازع اب مصالحت کی جانب۔چودھری احسن پریمی




امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرتا ہے۔ کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کی ایک سماعت میں ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکیوں کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان نے اپنے 5000 فوجیوں کی قربانی دی ہے اور ہزاروں پاکستان شہری ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے ہفتے سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریس کے ساتھ پاکستان کے دورے میں انہوں نے ایک متفقہ پیغام دیا کہ پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو ایک ہوکر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی, انکو سرحد کے دونوں پار سے بھگانا ہوگا اور انکی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنا ہونگی۔ہیلری کلنٹن نے کہا کہ ہم نے پاکستانیوں کو بتادیا کہ یہ کام بہت اہم ہے اور اسے جلد از جلد کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کے اس بارے میں دونوں فریقین نے کھل کر تفصیلی بات چیت کی۔ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ اِس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ سماعت میں موجود منتخب نمائندوں کو افغانستان اور پاکستان سے متعلق پالیسی پر تشویش ہے۔انھوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن اوران کے چوٹی کے متعدد ساتھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ان کے بقول، اب بھی دہشت گردی کا خطرہ باقی ہے، خصوصاً القاعدہ سے وابستہ دہشت گردوں کی طرف سے۔ تاہم، گروپ کی اعلیٰ لیڈرشپ تباہ کی جا چکی ہے اور دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی اس کی طاقت گھٹائی جاچکی ہے۔افغانستان سے متعلق، وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اب بھی امریکہ کو ایک مشکل لڑائی کا سامنا ہے۔ تاہم، اتحادی اور افغان افواج نے کلیدی علاقوں میں طالبان کی طاقت کا پانسا پلٹ چکی ہیں۔ ان کے بقول، افغان سلامتی فورسز کو ابھی ایک طویل سفر کرنا ہے، تاہم وہ روز بروز مزید ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ جبکہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ترکی کے شہر استنبول میں افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر افغان اور ترک رہنماوں سے بات چیت کریں گے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے گزشتہ دنوںاسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ صدر زرداری کی ان ملاقاتوں کا ایجنڈہ افغانستان میں قیام امن اور افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعاون کا فروغ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا پہلے بھی حامی تھا اور مستقبل میں بھی مکمل تعاون جاری رکھے گا۔ترکی نومبر کی دو تاریخ کو استنبول میں علاقے کے ملکوں کی ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہے ہے جس میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بھی شرکت کریں گی۔استنبول کانفرنس میں افغانستان کے مستقل کی راہ کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد میں سنہ دو ہزار چودہ تک مکمل ہو جائے گی۔تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان مستحکم، پرامن اور پھلتا پھولتا افغانستان دیکھنا چاہتا ہے جو خطے کے امن، استحکام اور ترقی میں معاون ثابت ہو۔ اس کے لیے خطے کے ملکوں میں ہم آہنگی اور تعاون کو مکمل اتفاق رائے سے یقینی بنانا ہو گا۔امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کو ہفتوں میں نہیں دنوں میں افغان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی اور ان کی محفوظ پناگاہوں کو ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان کا کہنا ہے افغانستان میں وسیع تر سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہیے اور سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ رابطے مستقبل میں امن مذاکرات کے لیے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ افغانستان میں مصالحتی عمل شروع کرنے کے بارے میں پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی پاکستانی حکومت کو یہ بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں مصالحت کے کیا اہداف ہیں۔ گزشتہ دنوں برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان صرف اسی صورت میں افغان مصالحتی عمل کی مدد کر سکتا ہے جب اسے اعتماد میں لیا جائے۔’وہ فیصلہ کہ جس میں کوئی روڈ میپ طے ہونا ہے، جس میں مصالحتی عمل کی کوئی شکل طے ہونی ہے، اس کے بارے میں ہمیں ابھی تک آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ ہمیں اس میں شریک نہیں کیا گیا ہے۔ اس مصالحتی عمل میں کون شامل ہے اور اس کے کیا اہداف ہیں، ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔’یہ ایک بنیادی فیصلہ ہے کہ افغان تنازع اب مصالحت کی جانب جا رہا ہے۔ اس کے اندر یہ طے ہونا چاہیے کہ کس کا کیا کردار ہو گا۔ اس کا تسلسل کیا ہوگا اور اس کے اندر ہمارا کیا کردار ہو گا۔ اس کے بعد ہم بتا سکیں گے کہ آیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اِس گروہ کو یا ا ±س گروہ کو اس عمل میں شامل کرا سکتے ہیں۔ لیکن اس مصالحتی عمل کے انجام کی ہم ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ کوئی بھی گروپ ہماری جیب میں نہیں ہے‘۔پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ نے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے طالبان شدت پسندوں کے ساتھ مبینہ تعلقات اور افغانستان میں مزاحمت کی مبینہ حمایت کے بارے میں برطانوی نشریاتی ادارے کی دستاویزی فلم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج ایسے یک طرفہ اور بے بنیاد پراپیگنڈے پر مبنی فلم دکھانے پراس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے۔اس رپورٹ میں امریکی اور افغان انٹیلی جنس اہلکاروں اور بعض شدت پسندوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان افعانستان میں مزاحمت کاروں کی مدد کر رہا ہے۔جنرل اطہر عباس نے کہا کہ یہ بیہودہ بات ہے کہ پاکستانی ایجنسی ان عناصر کی مدد کر رہی ہیں جو انہی کے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ ’اس جنگ میں آئی ایس آئی کہ ساڑھے تین سو اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ ایسے میں کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ ایجنسی ان لوگوں کا ساتھ دے گی‘۔میجرجنرل اطہر عباس نے پاکستان میں ہونے والے بعض خودکش حملوں کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے حملوں میں ایک ہی قسم کے لوگ شامل ہیں۔ایک سوال پر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی اور پاکستانی اعلیٰ فوجی قیادت نے اس بارے میں اپنا موقف کھل کر امریکی وزیرخارجہ کے سامنے رکھ دیا تھا اور انہیں بتادیا تھا کہ پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کے الزامات سے کسی کا بھلا نہیں ہو رہا۔’اعلٰی فوجی قیادت نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ہماری کوششوں میں اگر کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا تو اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش بھی نہ کرے‘۔جنرل اطہر عباس نے کہا کہ یہ روّیہ افغانستان میں قیام امن اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن رہا ہے۔’اس طرح کے الزامات یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں مصروف فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر سکتے ہیں جس کا فائدہ شدت پسندوں کے علاوہ کسی کو نہیں ہو گا‘۔ فوج کے ترجمان نے کہا کہ افعانستان میں قیام امن کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا اور اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستان اپنے طریقے سے کام کر رہا ہے۔’ہماری پالیسی ہمارے اپنے وسائل اور مسائل کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے جو شائد انہیں زیادہ پسند نہیں آ رہی کیونکہ ان کی اپنی ترجیحات اور وقت کی کمی کے مسائل ہیں۔ اس لیے ہماری درخواست یہ ہے کہ ہم پر تنقید کے بجائے وہ ہمارے مسائل اور وسائل سامنے رکھ کر ہمارا نکتہ نظر اور پالیسی سمجھنے کی کوشش کریں‘۔جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان اور افغان تنازعے کے دیگر فریقوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششوں میں افغان انٹیلی جنس کے ان سابق افسران کا اہم کردار ہے جو کہ افغان انٹیلی جنس سے نکالے گئے ہیں۔’ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ این ڈی ایس (افغان انٹیلی جنس) کے ان سابق افسران کی باتیں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں اور انہیں روکا کیوں نہیں جا رہا کیونکہ پاکستان اور دیگر اتحادیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں ان لوگوں کا بڑا کردار ہے"۔افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ہونے والی عالمی کوششوں میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے تقویت کا باعث سمجھی جارہی تھی لیکن بعض مبصرین نے اسے پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بھی قرار دیا ۔ پاکستان اور افغانستان نے افغان مصالحت کے لیے قائم مشترکہ کمیشن کی ایک ذیلی کمیٹی قائم کی تھی جسے پاکستانی سرزمین پر موجود ان جنگجو گروہوں کے ساتھ رابطے کا مینڈیٹ دیا گیا جو افغانستان میں اثر رکھتے ہیں۔ افغانستان میں جاری سیاسی اور مفاہمتی عمل میں پاکستان کو حصہ نہ ملنے پر اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ کچھ عرصے میں اعلیٰ سطح کے رابطوں کے ذریعے افغان حکومت کو یہ
باور کروایا کہ وہ طالبان کے ساتھ مفاہمت کی کوشش میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔پاکستانی حکام اس کمیشن کے قیام کو اپنی کامیابی تو قرار دیتے رہے ہیں کہ اس کے بعد اب پاکستان کو افغان مفاہمتی عمل میں باضابطہ کردار مل گیا ہے لیکن بعض حکام اس بات کو بھی سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کو کئی برسوں سے جاری اس پالیسی سے بھی چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا جس کا الزام عالمی برادری پاکستان پر لگاتی رہی ہے۔امریکی حکام طویل عرصے سے پاکستانی حکومت اور فوج پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ پاکستانی سرحد میں چھپے ان جنگجووں کے خلاف ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہیں جو افغانستان میں امریکی افواج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان میں اہم طالبان رہنماءجلال الدین حقانی کا نام بار بار لیا جاتا رہاہے جن کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پناہ دے رکھی ہے یا کم از کم اتنا تو ضرور ہے کہ پاکستان ان کے ’نیٹ ورک‘ کے خلاف کارروائی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔اب جبکہ پاکستان حقانی نیٹ ورک سمیت بعض دیگر جنگجو گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے انہیں مفاہمت کے ذریعے افغانستان کے سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی اپنی پالیسی پر دیگر فریقوں کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سب غیر مشروط طریقے سے نہیں ہوا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی کی اسلام آباد موجودگی کے دوران افعانستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں اور مشترکہ کمیشن میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ بعض عہدیدار وں کا کہنا تھا پاکستان سے کارروائی کرنے والے افغان طالبان گروہوں کے ساتھ رابطوں کے لیے پاکستانی اور افغان فوجی اور انٹیلی جنس حکام پر مبنی ذیلی کمیٹی کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے ایک بہت ’مخصوص‘ مدت اور مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ پاکستان کو اس مفاہمتی عمل میں شریک کرنے پر امریکی تحفظات کو دور کرنے میں افغان صدر حامد کرزئی نے اہم کردار ادا کیاتھا۔ پاکستانی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں افغان صدر نے ملفوف انداز میں پاکستانی سول اور فوجی قیادت کو یہ باور بھی کروایا کہ اس مشن کی کامیابی صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔افغان حکام کا اسلام آباد میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں بار بار کہنا تھا کہ افغانستان میں مفاہمت کی کوششوں کا یہ سب سے اہم موقع ہے اور اگر ان کوششوں میں ناکامی ہوئی تو اس سے نا صرف افغانستان سے انخلاءکی امریکی حکمتِ عملی کو زک پہنچے گی بلکہ افغانستان اور اس کے ساتھ پاکستان بھی شورش اور بدامنی کی ایسی دلدل میں پھنس سکتا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔اے پی ایس