ملکی خود مختاری کو درپیش چیلنج۔چودھری محمد احسن پر یمی




نوازشریف نے گزشتہ اتوار کو فیصل آباد میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایبٹ آباد میں حملہ ہوتا ہے تو حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔آصف زرداری کو ملکی خود مختاری کا سودا نہیں کرنے دیں گے نواز شریف نے کہا کہ ایبٹ آباد سانحہ پر آصف زرداری واشنگٹن پوسٹ میں مبارک باد جبکہ وزیر اعظم گیلانی پاکستان کی خودمختاری کو امریکی پاوں تلے روندنے کو عظیم فتح قرار دیتے ہیں۔حسین حقانی امریکی جنرل مائیک مولن کو خط لکھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج ہمارے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔اس کو کنٹرول کریں زرداری صاحب آپ کا سفیر امریکہ میں کیا کہہ رہا ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پانچ لاکھ فوج پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کر رہی ہے۔انہوں نے آصف زرداری سے کہا کہ ایک دو دن میں اس کی انکوائری کر ائیں ورنہ چاروں صوبوں بمعہ گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ پٹیشن لیکر جاوں گا اور میں خود سپریم کورٹ کے پاس جاوں گا۔نون لیگ کے جلسہ کے فوری رد عمل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جس طرح سرکاری سرپرستی میں ٹلہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے آج انہوں نے ٹلہ سیاست کھیلی ہے ۔پاکستان کے عوام جانتے ہیں کہ نواز شریف آج ایک باولر سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔نواز شریف نے آج پھر عدلیہ کو سیاست میں ملوث کر نے کا اعلان کیا۔ہمارے پاس شہیدوں کا ورثہ ہے نواز شریف کا جلسہ شہیدوں کی قبروں کا ٹرائل تھا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ملک بھر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کا موقف سننے کے بعد ہی امریکی قیادت کو بھیجے گئے متنازع خفیہ مراسلے کی تحقیقات آگے بڑھائی جائیں گی۔لاہور میں اتوار کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع چودھری احمد مختار نے حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے پہلے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ ”حقانی کو اپنا موقف پیش کرنے دیں کہ میں نے یہ بات کی ہے، تو اس کے بعد پھر آگے بات چلے گی۔“حکومت کی ہدایت پر حسین حقانی خفیہ مراسلے کے معاملے پر وضاحت پیش کرنے کے لیے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچے لیکن اعلیٰ قیادت سے ان کی ملاقاتوں کے شیڈول کے حوالے سے سرکاری طور پر کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔حسین حقانی نے ہفتہ کو واشنگٹن سے روانگی سے قبل پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی مارک گراسمین سے بھی 35 منٹ کی ملاقات کی تھی، اور اطلاعات کے مطابق امریکی عہدے دار نے بھی اس موقف کو دہرایا کہ سابق ایڈمرل مائیک ملن کو مراسلہ موصول ضرور ہوا تھا لیکن انھوں نے اسے کوئی اہمیت نا دیتے ہوئے نظر انداز کر دیا تھا۔حسین حقانی پر الزام ہے کہ انھوں نے مئی میں پاکستانی نڑاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کے توسط سے صدر آصف علی زرداری سے منسوب مراسلہ ایڈمرل ملن کو بھیجا تھا جس میں امریکی قیادت سے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کی برطرفی کے لیے واشنگٹن کی حمایت طلب کی گئی تھی۔ یہ مطالبہ ان خدشات کے تناظر میں کیا گیا کہ ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد فوج جمہوری حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔لیکن حکومت اور خود حسین حقانی ان الزامات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔اتوار کو میڈیا سے گفتگو میں وزیر دفاع احمد مختار نے حسین حقانی پر الزام عائد کرنے والے پاکستانی نڑاد امریکی بزنس مین کے کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔”جہاں تک منصور اعجاز کا تعلق ہے وہ بڑا سازشی آدمی ہے، اس نے پہلے بھی ایسے کام کیے ہوئے ہیں۔“دریں اثنا ایک مقامی انگریزی اخبار کے مطابق منصور اعجاز نے گزشتہ ماہ لندن میں آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے اس معاملے سے متعلق اہم شواہد بھی جنرل شجاع پاشا کے حوالے کیے۔ناقدین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ متنازع مراسلے کے باعث فوج اور حکومت کے درمیان تناو میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، لیکن وزیر اعظم اپنے حالیہ بیانات میں یہ بات زور دے کر کہتے رہے ہیں کہ اس معاملے کا منطقی انجام کچھ بھی ہو ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔امریکی محکمہءخارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے بھی مراسلہ پر براہ راست تبصرے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا ہے کہ امریکہ ”پاکستان کی جمہوری حکومت اور اس کے آئینی اقدامات کی حمایت کرتا ہے“جبکہ وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ میمو کے معاملے پر اگر نواز شریف سپریم کورٹ جائیں گے تو ہم بھی پیچھے نہیں رہیں گے، کارگل جنگ کے دوران پاک فوج کے خلاف جب نواز شریف کلنٹن کے پاس گئے تھے کیا وہ غداری نہیں تھی، موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی صدر زرداری کو ہٹانے کا خواب دیکھنے والے خواب ہی دیکھتے رہیں گے، وہ گزشتہ ہفتہ سکھر پریس کلب کے آڈیٹوریم کی عمارت کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، انہوں نے نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ وہ منصور اعجاز اور میمو کے معاملے پر سپریم کورٹ میں جانے کی بات کر رہے ہیں تو بلاتکلف وہ سپریم کورٹ جائیں ہم بھی کاندھے پر شواہد کا پلندہ لیکر سپریم کورٹ پہنچیں گے اور بتائیں گے کہ کارگل کے معاملے پر کب نواز شریف اپنی پاک افواج کے خلاف امریکہ کے صدر بل کلنٹن کی مدد مانگنے پہنچے تھے کیا یہ ملک کے ساتھ غداری نہیں ہے ؟۔وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید احمد شاہ نے اس کے ردعمل میں کہا جس میںپاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ اعجاز منصور کے میمو کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے، غیر جانبدار تحقیقات کیلئے قومی اسمبلی کی انکوائری کمیٹی بنا کر معاملہ حل کیا جائے، اگر اس میمو کے مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو ہم سپریم کورٹ جائینگے یہ معاملہ اس طرف یا اس طرف ضرور جائیگا، حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کی تحقیقات میں زیادہ دیر نہ کرے اوردس روز میں تحقیقات مکمل کرے، ملک میں بہت نامور لوگ ہیں جن پر مشتمل کمیشن بنایا جاسکتا ہے جن میں فخر الدین جی ابراہیم جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹرینز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیدی جائے اور پارلیمنٹ اس معاملے کی تحقیقات کرے تو بھی بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عزت، وقار، سلامتی اور خود مختاری داو پر نہیں لگنی چاہئے، ہم نے بھی ملک کی عزت وقار کا تحفظ کیا ہے اور اس پر کبھی آنچ نہیں آنے دی، اس پر کبھی سودے بازی یا سمجھوتہ نہیں کیا۔ جبکہ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے مائیک مولن کو لکھے گئے مبینہ میمو کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔حسین حقانی قطر ائر ویز کی پرواز سے اتواررات ڈھائی بجے بے نظیر انٹرنیشنل ائرپورٹ اسلام آباد پہنچے۔ وہ ایوان صدر چلے گئے جہاں ان کی صدرآصف زرداری سے غیررسمی ملاقات ہوئی۔ دونوں کی باقاعدہ ون آن ون ملاقات اتوار کو ہو ئی۔حسین حقانی کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے امریکی ایڈمرل ریٹائرڈ مائیک مولن کو بھیجے گئے مبینہ میمو کے بارے میں وضاحت پیش کرنے کے لئے بلایا تھا۔ ذرائع کے مطابق حسین حقانی کو صدر زرداری ، پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کے ارکان سمیت حکومتی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کر کے منصور اعجاز کے میمو کے معاملے پر وضاحت دینا تھا ۔پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کا دعویٰ ہے کہ ایڈمرل مولن کو حسین حقانی نے میمو بھجوانے کے لئے کہا تھا۔ حسین حقانی منصور اعجاز کے دعوے کی پہلے ہی تردید کر چکے ہیں۔پہلے ہی خبریں آچکی تھیں کہ حسین حقانی دوبارہ سفیر کی حیثیت سے امریکہ نہیں جائینگے اور گزشتہ دو دن میں انہوں نے اپنے تمام دفتری امور ”وائنڈ اپ“ کر لئے تھے۔ دوسری طرف بعض شخصیات نے امریکا میں پاکستانی سفیر بننے کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں اور اس حوالے سے حکومت سے رابطے بھی کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں نئے سفیر کی نامزدگی کیلئے ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام بھی آ رہا ہے جو اس سے پہلے بھی واشنگٹن میں سفیر رہ چکی ہیں تاہم بتایا جاتا ہے کہ امریکہ میں نئے سفیر کی تقرری کیلئے وزارت خارجہ کے ہی کسی سفارت کار کا انتخاب کیا جائے گا جن میں یورپی یونین میں تعینات پاکستان سفیر جلیل عباس جیلانی کا نام بھی لیا جا رہا ہے جن کے بارے میں یہ اطلاع بھی ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کی تھی جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کو بھی سفیر کی حیثیت سے ہی واشنگٹن بھیجا جا سکتا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق حکومت پر دباو ¿ ڈالاگیا کہ امریکی ایڈمرل مائیک مولن کو پاکستانی فوج کے خلاف خط بھیجے جانے میں ملوث ہونے کے باعث امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو برطرف کیا جائے اور ان پر مقدمہ چلایا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ محض ان کا استعفیٰ قبول کرنے پر قوم مطمئن نہیں ہوگی ان پر مقدمہ چلایا جانا ضروری ہے تاکہ قوم کے سامنے تمام حقیقت کھل کر سامنے آسکے۔ معلوم ہوا ہے کہ ایوان صدر کی جانب سے ان مطالبات کی مزاحمت کی جارہی ہے۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ حکومت یاصدرنے فوج کے خلاف مائیک مولن کوکوئی خط نہیں لکھا،پاکستانی سفیرحسین حقانی نے بھی اس حوالے سے کوئی میموتحریرنہیں کیاتاہم انہوں نے ایک امریکی شہری (منصور اعجاز) کے ساتھ پیغامات (ایس ایم ایس)کا تبادلہ کیا، ان سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی ہے جو اگر تسلی بخش نہ ہوئی تو تحقیقات کرائیں گے، معاملہ پاکستانی سفیر اور امریکی شہری کے درمیان پیغام رسانی کا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ ابتدا کس نے کی، کسی کو سنے بغیر الزام دینا انصاف نہیں ہے، معلوم کرناہے میموکس نے لکھا اورکس نے بھجوایا،حسین حقانی کیخلاف بغاوت کے مقدمے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا کہ میمو ایشو پر حسین حقانی کو واپس بلایا ہے، انہیں سنے بغیر کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں۔جبکہ حسین حقانی نے پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز کی جانب سے جاری کئے گئے بلیک بیری کے مبینہ پیغامات کی صداقت سے انکار کرتے ہوئے منصور اعجاز کے تمام دعوو ¿ں اورالزامات کی تردید کی ہے۔ ایک وضاحتی بیان میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کوئی میمولکھانہ بھجوایااورنہ ہی منصوراعجازسمیت کسی شخص کو ایسا کرنے کااختیاردیا،حسین حقانی کاکہناتھا کہ اس مبینہ بات چیت کے حوالے سے مئی کے مہینے کی جس تاریخ کاحوالہ دیا جارہاہے اس روز وہ لندن کے پارک لین انٹرکانٹیننٹل ہوٹل میں مقیم تھے،پاکستانی سفیرکے مطابق وہ برطانیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف سرڈیوڈرچرڈزاور اس وقت کے پارلیمانی سیکریٹری برائے دفاع ٹوبیاس ایلوڈ سمیت دیگر اعلیٰ برطانوی عہدیداروں سے ملنے لندن گئے تھے ،مذکورہ عہدیداران اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس وقت پاک امریکاتعلقات کی جوصورتحال تھی اس کے پیش نظرمیرے ذہن میں حکومت کاتختہ الٹے جانے کاکوئی خطرہ نہیں تھا، انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہاہے کہ وہ اس بات کوسمجھنے سے قاصرہیں کہ کیوں منصوراعجازایک طرف میمو پہنچاکرسویلین حکومت کی مددکادعویٰ کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب منتخب حکومت اورپاک فوج کے خوشگوارتعلقات کو نقصان پہنچاکرجمہوریت کوتباہ کرنے کے درپے ہیں ، اس بارے میں کچھ بھی کہناحیران کن ہوگا،حسین حقانی نے کہا ہے کہ وہ منصوراعجازکوگزشتہ ایک عشرے سے جانتے ہیں اور اس دوران وہ کئی باران سے آن اورآف دی ریکارڈ گفتگو کرچکے ہیں ،ایک بارمنصوراعجازنے مجھ سے کہاکہ وہ میرے مقابلے میں زیادہ امیراورخوبصورت ہے اس لئے مجھے اس پرزیادہ توجہ دینی چاہئے،یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے اقدامات کے نتائج کے بارے میں نہیں سوچتا، پاکستانی سفیر کاکہناتھا کہ ہوسکتاہے منصوراعجازدنیاکاواحد ایسا نام نہادخفیہ جاسوس ہوجواس قدرتشہیرکاخواہشمندہو ،انہو ں نے اپنے 10 اکتوبرکے آرٹیکل میں جوکچھ لکھاہے اگروہ صحیح ہے توانہیں اس کی وضاحت کرناہوگی۔ اے پی ایس