تاثرات اور تحفظات۔چودھری احسن پر یمی




مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی بد انتظامی اور کمزور گورننس کی ذمہ دار 80فیصد سے زائد وفاقی اور باقی کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، کرپشن اورمعاشی انتظامی بدحالی سے ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار آنے سے گھبرا رہے ہیں ۔ مرکزی بینک کی حالیہ رپورٹ وائٹ پیپر سے کم نہیں ہے۔یکساں احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔جمہوری اداروں میں استحکام سے معاشی حالات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اس وقت ملک میں صرف 13.4فیصد شرح سے سرمایہ کاری ہو رہی جو کہ 1974ءکے بعد کم ترین ہے ملک معاشی ابتری کی طرف بڑھ رہا ہے ،دور دور تک اس سے نکلنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ گزشتہ 64سال سے اگر تنقید برائے تنقید کی بجائے ،تنقید برائے اصلاح کی جاتی تو ہم ایک قوم بن جاتے ۔ زمینی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،حکومتوں نے جو فیصلے ملک پر مسلط کئے ،آج قوم ان کا بوجھ اپنے کمزور کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ اس وقت ہر شخص دباومیں ہے۔جبکہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ملک کی بدترین سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمو اسکینڈل نہ صرف فوج کیخلاف سازش ہے بلکہ ملک و قوم کیخلاف سنگین غداری اور قومی سلامتی پر حملہ ہے۔ سپریم کورٹ آزادانہ تحقیقات کر کے اس اسکینڈل میں ملوث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادیوں کی جانب سے عدلیہ اور فوج کو دی جانے والی دھمکیوں اور مسلسل محاذ آرائی سے اداروں میں ٹکراو ¿ ہو گا اس طرح پیپلز پارٹی ایک بار پھر سیاسی شہادت کی کوشش کر رہی ہے حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہو چکی ہے اور اس سے نجات کا وقت آ گیا ہے۔یہ بات جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے حالیہ ہونے والے اجلاس میں متفقہ قرار داد میں کہی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران سانحہ ابیٹ آباد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے میمو کے بارے میں پوچھنے والے بتائیں کہ 6سال سے اسامہ بن لادن کس کے ویزے پر یہاں تھا۔ ان کا یہ بیان بحیثیت وزیراعظم اٹھائے گئے اپنے حلف کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اپنے ملک کے اداروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش ہے۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور اب مزید چند مہینوں میں کیا کرے گی۔ اس لئے ایک غیر جانبدار عبوری انتظامیہ اور ایک با اختیار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی الیکشن کا اعلان کیا جائے تاکہ قوم اپنے مسائل کے حل کے لئے نئی قیادت کا انتخاب کر سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس یہ بھی واضح کرتا ہے کہ حکومت کی ناکامی کا بہانہ بناکر اگر کسی غیر جمہوری غیر آئینی اقدام کی کوشش کی گئی تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔قرار داد میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت ہماری تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔ اور حکمرانوں کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس حکومت کی اصل دلچسپی این آر او کے ذریعے اپنے ماضی کے مالیاتی و سیاسی جرائم سے فراغت حاصل کر کے امریکا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کی جاری کردہ داخلی و خارجی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کی جنگ میں شمولیت کو جاری رکھ کر ملک کو سیاسی و معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا۔قرار داد میں کہا گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے اصل مجرموں اور اس جرم کے معاون کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اس حکومت نے جو انہی کے خون کی بدولت اقتدار میں آئی، کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔ اس دعوے کے باوجود کہ اصل مجرموں کو صدر صاحب جانتے ہیں ، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ملک میں توانائی کا بحران اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ عوام بجلی ، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ اس کے باوجود یکم جنوری سے گیس کی قیمت میں چودہ فیصد اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کر نے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر پیپلزپارٹی ضلع جعفر آباد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے زنجیروں میں جکڑے20 نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں بچا لیا گیا۔ ادھر اوچ شریف میں پی پی کے کارکن نے گلے میں رسی ڈل کر خودکشی کرلی۔تفصیلات کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر ضلع جعفر آباد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے زنجیروں میں جکڑے بیس نوجوانوں نے خود سوزی کی کوشش کی جنہیں بچا لیا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں نے پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر صادق عمرانی اور حکومت بلوچستان پر سنگین الزمات عائد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور بلوچستان پیکیج کے تحت ملنے والی دس ہزار ملازمتوں میں سے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن صرف روٹی، کپڑا اور مکان اور ملازمت کے خواہش مند ہیں لیکن کارکنوں کو نہ تو یہ مراعات دی جارہی ہیں اور نہ ہی انہیں اہمیت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید احساس محرومی کا شکار ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر نے کا فیصلہ کر چکے ہیں حکومت اب ہماری لاشیں اٹھائے اور پھر انسانی حقوق کی تنظیموں کے سوالات کا جواب دینے کیلئے تیار رہے۔ علاوہ ازیں خیر پور سے تعلق رکھنے والے محکمہ تعلیم کے چھوٹے ملازمین نے وزیر اعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے بحالی کے حکم کے باوجود انہیں ملازمت نہیں دی جارہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ جس میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے اس پر پیپلز پارٹی نے 90 فیصد عمل کیا، ہماری لیڈر شپ نے مفاہمت کی سیاست کوفروغ دیتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا ، توقع کرتے ہیں کہ میاں نوازشریف بھی ملک کی بہتری ، جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے آگے بڑھیں گے ، جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے ہیں اگر ایسے فیصلوں کو عدالت میں لے کر جایا جائے گا تو پھر اس سے میثاق جمہوریت کی توہین ہوگی، شہید بینظیر قتل میں عالمی قوتیں ملوث تھیں اور مقامی لوگ بھی آلہ کار بنے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک میں ووٹ کے ذریعے تبدیلی چاہتی ہے کیونکہ جو تبدیلی بلٹ یا کسی اور طریقے سے آتی ہے وہ دیرپا اور پائیدار نہیں ہوتی، اسی لئے ہم ووٹ کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی جب بھی اقتدار میں آئی ہے عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی ہے ہم نے پھر یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا ہے اور (ن) لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے یہ کہتے ہیں کہ وہ آنے والے انتخابات کا انتظار کریں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا کیس عدالت میں ہے اور اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے ان کے قتل میں بین الاقوامی قوتیں ملوث تھیں اور مقامی لوگ بھی اس کا آلہ کار بنے، ابھی ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ عدالت میں کیس اور تفتیش کا عمل چل رہا ہے ، نوڈیرو میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہ ہونا اعلیٰ قیادت کا فیصلہ ہے، ممکن ہے کہ پارٹی قیادت نے گڑھی خدا بخش میں شہید بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات اور اس کے جلسے کو فوکس کیا ہو۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کے قاتلوں کے بارے میں حکومت کی تحقیقات مکمل ہو چکی اور قتل میں ملوث چار ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ 8 ملزمان روپوش ہیں، قتل کی سازش جس کمرے میں ہوئی ا?س کمرے کے فوٹو، قاتل پشاور سے راولپنڈی کے درمیان جس جگہ قیام پذیر رہے اور انہوں نے بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کے بعد کہاں جا کر کس کو اطلاع دی یہ سب باتیں حکومت کو معلوم ہو چکی ہیں، کوشش کر رہے کہ عدالت ہمیں اجازت دے کہ ہم اس تحقیقاتی رپورٹ اور ملزمان کے بارے میں قوم کو بتا سکیں۔ گڑی خدا بخش لاڑکانہ میں بینظیر بھٹو کی چوتھی برسی کی تقریبات میں شرکت کے بعد سکھر ائیرپورٹ سے اسلام آباد روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہاکہ شہید بینظیر بھٹو اور ان کے خاندان پر تنقید کر نیوالوں کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پرویز مشرف پاکستان آئیں انہیں کسی نے نہیں روکا ہے ہماری حکومت ان کیخلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ انہیں عدالت نے اشتہاری ملزم قرار دیا ہے اب وہ پاکستان آئیں گے تو انہیں عدالت کا سامنا تو کرنا پڑیگا ۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان قائد اعظم کے مزار پر جلسہ تو کرآئے
لیکن قائد اعظم کے مزار پر سلام کرنے نہ جاسکے،ہم نے انہیں جلسہ کرنے سے نہیں روکا۔جبکہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ حکومت بی بی کے ماننے والو ں کی ہے تو اسے غریب کیلئے کچھ کردکھانا ہوگا،وہ منگل کو بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقع پر جلسہ سے صدر زرداری کی خصوصی دعوت پر ان کے خطاب کے بعد تقریر کر رہے تھے۔ اپنے جذباتی خطاب میں انہوں نے بے نظیر بھٹو شہید کو ایک عظیم بہادر اور جرات مند قائد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی جان کو درپیش خطرات کے باوجود مشرف کے ایمرجنسی لگانے کے بعد اسے للکارتے ہوئے وطن واپس آئیں ‘ بے نظیر سے بندوق والے بھی ڈرتے تھے‘ بے نظیر پاکستان کی ہر جھونپڑی اور ہر گھر میں رہتی تھیں‘الیکشن قریب ہیں صدر اور وزیراعظم کو سوچنا ہو گا کہ ہم نے عوام کیلئے کیا کیا ہے ‘ آج غریب عوام مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں بے حال ہیں اگر یہ حکومت بی بی کے ماننے والوں کی ہے تو پھر ہمیں اپنے غریب عوام کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ اعتزا ز احسن نے کہا کہ ہم جہاں کھڑے ہیں یہ جگہ شہیدوں کا قبرستان کہلاتی ہے۔انہوں نے صدر اور وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج جب الیکشن قریب آ رہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے عوام کو کس حد تک خوشحال کیا ہے۔ لوگ بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ان میں بچوں کی فیسیں اور گھروں کے کرائے دینے کی سکت نہیں اگر ہم بی بی کے ماننے والے ہیں تو ہمیں ان کیلئے کچھ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ آج ہماری آواز پوری دنیا سمیت ان ایوانوں میں گونجے گی جن ایوانوں میں بے نظیر کے خلاف تینوں موجود ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین و صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہاہے کہ تمام قوتیں جمہوریت کے تابع ہیں، جیو اور جینے دو کی پالیسی پر زندہ رہنا چاہتے ہیں، ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جمہوری انداز اپنائیں گے، ٹیلر میڈ جمہوریتیں نہیں چلتیں، دھرتی کا بیٹا ہوں، وفاق ٹوٹنے نہیں دوں گا، بی بی کا قرض آصفہ چکائے گی، آصفہ وہاں سے علم اٹھائے گی جہاں سے گرا تھا، وزیراعظم ہمارا ہے اور ہم اس کی عزت کرتے ہیں اسی بات مانیں گے، وزیراعظم ڈگمگائیں گے نہیں،کونڈو لیزا رائس کی کتاب نے بی بی کا کیس دوبارہ کھول دیا ہے، میں نے یو این او رپورٹ اس لئے مسترد کی کہ کونڈا لیزا رائس اس کے سامنے حاضر نہیں ہوئیں، انتخابات کرسیوں کیلئے نہیں جمہوریت کیلئے لڑیں گے، جس نے پارٹی سے جانا ہے جائے،جس سونامی کی بات لوگ کر رہے ہیں وہ سونامی نہیں ذونامی ہے، ہم نے پختونوں اور بلوچوں کا درد محسوس کیا ہے اور انہیں شناخت دی، تخت لاہور سے اپنا حق مانگنے والے جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی ان کا حق دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی چوتھی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صد رآصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 30 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کا کیس اٹھا رہا ہوں، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کیس کا کیا بنا؟ میں بھی پوچھتا ہوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب ! بینظیر بھٹو کے کیس کا کیا بنا؟ صدر زرداری نے کہا کہ کاش عدالتیں میرے ماتحت ہوتیں، باقی دوسرے کیسز آپ کو نظر آرہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے پہلے بھی ایسے اکھاڑے دیکھے ہیں۔ وقت آیا تو ہم آپ کے سامنے بھی آئیں گے۔صدر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ دنیا میں اقتصادی بحران ہے، پارٹی کو نیا معاشی نظام پیش کیا ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ بااثر طریقے سے کام کریں گے۔ چین، روس اور وسطی ایشیا کے ساتھ نئے بلاک بنانے ہیں۔انہوں نے امریکا کا نام لئے بغیر کہا کہ کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہ کرے، ملکی مفاد میں، جس سے ہوا، تجارت کریں گے۔انہوں نے کونڈولیزارائس کی کتاب نے بی بی کاکیس دوبارہ کھول دیاہے۔امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس سے پوچھوں گا کہ وہ بینظیر قتل کیس میں شہادت کیوں نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کے دوست ہیں کسی کیساتھ دشمنی نہیں چاہتے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی کی جنگ میں نہیں جائیں گے۔صدر نے کہا کہ میرے دل میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے جو آج میں دنیا کے مسلمانوں‘ سیاستدانوں اور پاکستان کے سیاستدانوں کو کہنا چاہتا ہوں۔ ہم ہیڈ لائن نہیں تاریخ بنانا چاہتے ہیں، میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور محسوس کرسکتا ہوں کہ یہاں کتنے درد ہیں، ان میں سے ایک درد بلوچستان کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں بلوچستان کی بات کرتا ہوں تو سردار نوروز خان کی شکل میرے سامنے آجاتی ہے۔ آج کے سیاستدان جو یہ بات کرتے ہیں کہ ہم معافی مانگتے ہیں، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کس بات کی معافی مانگتے ہیں۔ ہر قوم کی الگ صفت ہے‘ بلوچ ‘بلوچ میں فرق ہے، جسے ہم سمجھتے ہیں اسلئے میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہم سے سیکھئے، بیٹھنے بٹھانے اور خیالات ملانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچوں کی خدمت کی اور کرتے رہیں گے۔ جو بلوچ لڑ رہے ہیں‘ جیلوں سے اسلئے نہیں چھوڑا تھا کہ آکر لڑنا ہے‘ لڑنا ہے تو ہم سے سیکھئے‘ ہم نے بارہ بارہ سال جیل کاٹی‘ بھٹو سے لے کر اب تک چار شہادتیں دیں اس کے بعد گڑھی خدا بخش میں کھڑے ہوکر بات کرنے کے قابل ہوئے‘ قربانیاں نہ دیتے تو آج عوام ہمیں قبول نہ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پختونوں کو ایک شناخت دی ، وعدہ کرتا ہوں کہ ان سے یہ شناخت آنے والی نسلوں تک کوئی واپس نہیں لے سکتا۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ جنوبی پنجاب سے آواز آرہی ہے کہ وہ تخت لاہور سے اپنا حق مانگ رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ہمیں تخت لاہور سے آزادی دلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تابع ہیں‘ وزیراعظم ہمارا ہے‘ ہم اس کی عزت کرتے ہیں اور اس کی بات سنتے ہیں کیونکہ جب وزیراعظم مجھ سے بات کرتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ بات کررہی ہے اور ہم پارلیمنٹ کی بات سنتے ہیں ہم سنتے ہیں یہی جمہوریت ہے ،اسی جمہوریت کیلئے ہم نے عوام کی قربانی مانگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے منشور پر عملدرآمد کیا ہے‘ ہم نے اس جنگ کو لڑنا ہے جس نے ہماری بی بی ہم سے چھینی‘ انہوں نے کہ جمہوریت عوام کو ریلیف دے سکتی ہے اور دیتی ہے‘ ہمیں مشکلات درپیش ہونے اور دنیا میں بحرانوں کے باوجود پاکستان میں روٹی‘ چاول ہے اور لوگوں کو دینے کیلئے پیسہ ہے۔ یہاں دو سیلاب آئے ایک سیلاب کو اقوام متحدہ نے سونامی قرار دیا‘ یہ وہ سونامی نہیں جس کی لوگ بات کررہے ہیں وہ تو زونامی ہے۔ سیلاب آنے کے باوجود ہمارے گودام غلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آج پیپلزپارٹی کے رہنماو ¿ں اور وزراءکو ہدایت کرتا ہوں کہ انہیں ایسے ٹی وی پروگراموں میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں جہاں سب سیاستدانوں کو بلاکر ایک دوسرے کی ٹوپی اچھالی جاتی ہے اور بے عزتی کی جاتی ہے‘ جب کسی موضوع پر بلائیں گے تو جائیں گے‘ اس پروگرام میں جائیں گے جس کے کمپیئر کے کان میں کوئی آلہ نہیں لگا ہوگا اور وہ موضوع پر بات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج حکومت کو چار سال ہوچکے ہیں۔ ہمیں جن حالات میں اقتدار ملا تھا وہ سب کے سامنے تھا۔ آج ہم پر انگلیاں اٹھانے والوں اور ٹائیگرز سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہے جو وزیر زراعت رہا ہے وہ بھی تو کچھ نہ کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کے جانے کا کوئی افسوس نہیں‘ ہمارے ساتھ جو رہے گا ہمارے سر آنکھوں پر اور جو جائے گا وہ بھی ہمارے سر آنکھوں پر‘۔انہوں نے کہا کہ آج لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟ میں بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے پوچھتا ہوں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا‘ عدالتیں میرے اختیار میں نہیں‘ کاش! ایسا ہوتا میں نے تاریخ اور دھرتی کا قرض ذوالفقار علی بھٹو کا کیس آپ کے پاس بھیجا ہوا ہے مگر وہ کسی کو نظر نہیں آتا پھر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘ جج صاحب ہم آ پ کے سامنے آئیں گے آپ نے جوکرناہے کرلینا،اگرسیاست کرنی ہے توہم جیسی کرو، نہیں کرسکتے توکوئی آسان کام کرو آسان کام کس کوکہتے ہیں یہ الطاف بھائی بہتر بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سب کو آئین کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے، کسی نے بھی اپنے آپ کو آئین سے باہر نکالا تو آئین اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے ۔کوئی بھی ادارہ خواہ وہ الف، ب اورج ہو، غیر آئینی کام نہیں کرسکتا ۔ صدر نے کہا کہ ہم نے اٹھارہویں ترمیم میں بھٹو کا وعدہ پورا کردیا‘ ہم وفاق کو نہیں توڑیں گے‘ ہمارا لڑنے کا انداز آنگ سان سوچی جیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک مشکل سے بنایا گیا ہے‘ آدھا ٹوٹ چکا ہے اور نہیں توڑنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کونڈولیزا رائس کی نئی کتاب نے محترمہ کا کیس دوبارہ کھول دیا ہے‘ میں نے اقوام متحدہ کی ریزولوشن اسلئے مسترد کی کیونکہ کونڈولیزا رائس اس میں
پیش نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی موروثی سیاست نہیں‘ بھٹو کی شہادت کے بعد بینظیر قیادت کیلئے مجبور ہوگئی تھیں اور سیاست میں آئیں اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ آج اگر کسی کو کہوں کہ میرا غم دیکھو تو کوئی نہیں سنے گا، اسلئے ہم بارٹر سسٹم لائیں گے۔ ترکی اور چین نے اس پر دستخط کردئیے باقی ملکوں نے بھی وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ہمیشہ یہ نعرہ لگایا کرتے تھے کہ ایک بھٹو یہاں اور ایک بھٹو تم میں ہے اور اس نعرے کی تشریح یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے تھے جب وہ لوگوں کی طرف دیکھتے تھے تو انہیں اپنا آپ دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت ملک میں آگئی ہے مگر صفتیں آنے میں ابھی وقت ہے۔ درخت کو بڑا ہونے میں وقت لگتا ہے ٹیلرمیڈجمہوریتیں نہیں چلتیں ۔ صدر نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اے کارکنوکبھی نہ گھبراناآگے بڑھتے رہناجب بھی مشکل وقت آیامیں سب سے آگے ہوں گااور اپنی چھاتی آگے اورآپ کو پیچھے کروں گا میں نے ہمیشہ بی بی کوبھی کہا کہ آپ چھوڑیں میں مقابلہ کروں گا‘ ہم جب بھی مقابلہ کریں گے تو ہمارا انداز جمہوری ہوگا‘ ہم کرسیوں کیلئے نہیں لڑتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آئینی صدر اور وزیراعظم ہیں‘ میرا پروٹوکول ضرورت سے زیادہ ہے مگر آئینی لحاظ سے وزیراعظم میرا لیڈر ہے‘ کارکن یوسف رضا گیلانی پر اعتبار کریں جس بی بی نے مجھ پراعتبارکیا ۔ انہوں نے کہا یہ بھی کہا گیا کہ میں طبی طور پر ٹھیک نہیں (میڈیکلی آو ¿ٹ) ہوں‘ پتہ نہیں یہ کس نے کہہ دیا‘ ہاں جس طرح مسل کھنچ جاتا ہے ہوسکتا ہے میرا مسل بھی کھنچ گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ میاں نواز شریف کی تعریف کرتا ہوں‘ نواز شریف جب نوابشاہ آئے تو کہا کہ لگتا نہیں یہ صدر کا ضلع ہے‘ مجھے ان کی اس بات پر خوشی ہوئی‘ انہوں نے صحیح کہا کہ یہ صدر کا نہیں جیالوں اور بی بی کا ضلع ہے۔ انہوں نے کہاکہ سارے اختیارات پارلیمنٹ کو دینے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دبئی میں ایک سابق وزیراعظم نے آصفہ سے کہا کہ آپ نے جس کو وزیر خارجہ بنایا اس کو میں نے تربیت دی تھی تو آصفہ نے کہا کہ آپ نے اسے تربیت دی ہم نے اس سے تاریخ بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی دوستوں کو بتانا چاہتاہوں بی بی کا قرضہ آصفہ اتارے گی، آصفہ نے علم وہاں سے اٹھانا ہے، جہاں پر گرا تھا۔ہم نے پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے بیشک بہت سے چیلنجز درپیش ہیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ کل آنے والا چیلنج بڑا ہوگا جس سے نمٹنے کیلئے ہم نے آج سے تیاری پکڑنی ہے۔ ہم نے نئے ٹریڈ بلاکس بنانے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ دنیامیں اقتصادی بحران ہے،پارٹی نے نیا معاشی نظام پیش کیا ہے،دوسرے ممالک کے ساتھ بااثرطریقے سے کام کرینگے ۔ ہم نے دنیا سے کہا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ جس کیساتھ چاہیں تجارت کریں کیونکہ آپ ہمیں سنبھال نہیں سکتے، ہمیں اپنے بچوں کی فکر کرنی ہے، آپ کے نخرے نہیں اٹھانے۔ جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ بینظیر جیسی قد آور لیڈر کی شہادت کو چار سال گزرگئے، حکومت بتائے ان کے قتل کا کیا ہوا؟۔بھٹو کی پھانسی پر ریفرنس لایا گیا اور لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ بھی اب تک حل نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9رکنی لارجر بنچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کی، سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میمو ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے تو پھر اس کی تحقیقات کی ضرورت کیوں پیش آئی، ایوان صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی اور حسین حقانی سے استعفیٰ کیوں لیا گیا، عدالت نے اس کیس میں صدر سے جواب طلب کیا تھا شاید انہوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ عدالت نے میمو کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو ہدایت کی ہے کہ وہ آج اپنے دلائل مکمل کریں جبکہ اٹارنی جنرل کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا چاہئے اور عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ادھر عاصمہ جہانگیر نے میمو کیس کے ناقابل سماعت ہونے پر منگل کو دلائل دیتے ہوئے دوران سماعت عدالت کے سامنے ایک سوال رکھا کہ خفیہ ادارے کو حکومت کیخلاف تحقیقات کا اختیار کس نے دیا۔ دائر درخواستوں کی سماعت پر اٹارنی جنرل انوارالحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ متنازعہ میمو کی ایوان صدر کی جانب سے 29 اکتوبر کو تردید کی گئی تھی جبکہ وزیراعظم نے 22 نومبر کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے میمو کے وجود اور اس کیخلاف دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میمو ایک مفاد عامہ کا معاملہ ہے لیکن وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس سے درخواست گزاروں کے حقوق متاثر نہیں ہوئے۔ جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا تھا تو ایوان صدر میں اس کیلئے اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بے کار کاغذ کا مطلب ہے کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے یہ تو تحقیقات کے بعد پتا چلے گا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا ہے یا نہیں جبکہ وزارت خارجہ نے اپنے جواب میں میمو کی تردید نہیں کی بلکہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ آپ اس کو کاغذ کا ٹکڑا کہتے ہیں جبکہ آرمی چیف اس کو ملک کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حسین حقانی سے استعفیٰ کس لیے لیا گیا جبکہ وزیراعظم نے اس کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا آپ اس میمو کے وجود سے انکار کرتے ہیں؟۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کو اس معاملے پر پارلیمانی سفارشات کا انتظار کرنا چاہئے اور عدالت کو اس کیس کی سماعت سے گریز کرنا چاہئے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تحقیقات عدالتی کارروائی کو نہیں روک سکتیں اور فیصلہ عدالت میں ہونا ہے پارلیمانی کمیٹی میں نہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پر کوئی قدغن نہیں لیکن یہ درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ اس معاملے میں بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالت کی سماعت پر کوئی قدغن نہیں تو پھر عدالت کو کیوں روکا جارہا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو تحقیقات کرنے دی جائیں، میمو جعلی ثابت ہوگیا تو حکومت سرخرو ہوگی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوئے تو حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے آئی ایس آئی کی بات ماننی ہے تو عدالت میں بھی بہت سے باغی ملیں گے، آپ آئی ایس آئی کی درخواستوں کو سن رہے ہیں میرے موکل کو عدالت نے سنا ہی نہیں اور اس کیخلاف سنادیا گیا، میں تو کہتی ہوں کے عدالت میں بے نام درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اگر آئی ایس آئی کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو ولی خان اور بینظیر بھٹو سمیت اس عدالت میں موجود بہت سے افراد غدار قرار دیئے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف سمیت تمام افراد کی درخواستیں قابل سماعت نہیں، ان کو مسترد کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول صدر اور وزیراعظم کے پاس ہونا چاہئے، ایٹمی اثاثوں کی مالک صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم ہے، وزیراعظم کسی کو ہٹائیں تو اس میں عدالت کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ ہٹانے کی خبریں شائع ہوئیں اور تبصرے شروع ہوگئے کہ میمو پر عمل شروع ہوگیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت کو آرمی چیف کی برطرف سے کیا مسئلہ ہے، عدالت کو اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ آرمی چیف کی برطرفی وزیراعظم کا اختیار ہے اور اگر وزیراعظم آرمی چیف کو برطرف کرتے ہیں تو وہ اپنا ختیار استعمال کرتے ہیں۔جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کی تحقیقات تقریباً مکمل ہوچکی ہیں، معاملہ عدالت میں ہونے کے باعث تفصیلات منظر عام پر نہیں لاسکتے، ضرورت محسوس ہوئی تو وزیر داخلہ سی ای سی کی میٹنگ میں کچھ حصے ظاہر کریں گے، کنگز پارٹی کنگ کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے، اچھا ہوا کمزور دل حضرات پہلے ہی چلے گئے‘ الیکشن کے موقع پر جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا، اداروں کو لڑانے کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں‘ تمام اداروں کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا، آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے کوئی تصادم نہیں ہوگا‘ پیپلزپارٹی بڑی جماعت ہے‘ سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ وہ منگل کو یہاں گڑھی خدا بخش بھٹو میں بینظیر بھٹو شہید کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ پیپلزپارٹی نظریہ اور فلسفہ کا نام ہے اور اس کی ایک طویل
جنگ ہے، دوسری جماعتوں کیساتھ جانے والے لوگ موقع پرست ہیں ان کا کوئی فلسفہ نہیں۔ اس وقت تمام کنگز ایک جماعت میں اکٹھے ہورہے ہیں تاہم کنگز پارٹی کنگ کیساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ جو کمزور دل حضرات ہمارے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے تھے پہلے چلے گئے کیونکہ الیکشن کے موقع پر چلے جاتے تو ہمیں نقصان ہوتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اداروں کے مابین ٹکراو ¿ کی سازشیں ہمیشہ ہوتی رہیں پہلے صدر اور وزیراعظم کے مابین اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی پھر حکومت اور عدلیہ کو ٹکرانے کی کوشش کی گئی اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وزیراعظم ججوں کو ڈی نوٹیفائی کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد فوج اور حکومت کے مابین اختلاف لانے کیلئے جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی افواہ پھیلائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری قوت ہیں اور بینظیر بھٹو کے فلسفہ مفاہمت پر عمل پیرا ہیں اور اسی کے تحت تمام قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں تاہم میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہر ادارے کو آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ اگر ادارے آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے تو کوئی تصادم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ تمام اداروں کو آئین کے تابع بنایا جائے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو اجاگر کیا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی معمولی نہیں ایک بڑی جماعت ہے جو تمام سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتی ہے۔ امریکہ کیساتھ تعلقات کے فیصلے اب پارلیمنٹ کرے گی۔قبل ازیں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے چیئرمین سینیٹ ،وزیراعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیرداخلہ کے ہمراہ بے نظیربھٹو شہید کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادرچڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ جبکہ ایک دلچسپ اورخفیہ سیاسی پیش رفت میں پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بیرسٹر اعتزاز احسن کو یوسف رضا گیلانی کی جگہ ملک کا وزیراعظم بنانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، صدر زرداری انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق سوائے طریقہ کار کی چند رکاوٹوں کے اعتزاز احسن کو وزیراعظم بنائے جانے کا قطعی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ صدرزرداری کے بارے میں چاہے کچھ بھی کہا جائے، تاہم وہ دوست و دشمن دونوں کو حیران کردینے کا خصوصی ہنر رکھتے ہیں، منگل کو گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے اجتماع سے خطاب میں صدرزرداری نے اعتزاز احسن کی مدح سرائی کرکے سیاسی مبصرین کو حیران کردیا صدرنے نوڈیرو آنے پر اعتزاز احسن کا نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ ایک غیرمعمولی پیش رفت کے تحت اعلان کیا کہ ان کے بعد اعتزاز احسن خطاب کریں گے، اس طرح وہ اجتماع کے ایک کلیدی مقرر بن گئے، صدر کے قریبی ذرائع کے مطابق یوسف رضا گیلانی کو ہٹا کر اعتزاز احسن کو لانے کیلئے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے معزول ججوں کی بحالی کے لئے تحریک میں اعتزاز احسن نے کلیدی کردارادا کیا تھا اور انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے ایک طرف کردیا گیا تھا، سن 2009ءمیں ان کی پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی رکنیت بھی معطل کردی گئی تھی ، تاہم اعتزاز احسن کا اصرار تھا کہ وہ پیپلز پارٹی نہیں چھوڑیں گے ، شاید ان کی پیپلز پارٹی کے لئے قربانیاں اب رنگ لائی ہیں اور انہیں وزارت عظمیٰ کے لئے زیر غور لایا جارہا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیر کی شب نو ڈیرو کے اجتماع سے قبل قمر زمان کائرہ، فوزیہ وہاب، شیری رحمن، راجہ پرویز اور دیگررہنماو ¿ں نے اعتزاز احسن سے ٹیلیفون پررابطے کئے جبکہ صدر زرداری 6دسمبر کو دبئی روانگی سے قبل اور آج کل بھی بیرسٹر اعتزاز احسن کو روزانہ گھنٹوں طویل ٹیلیفون کالز کرتے رہے ہیں، نوڈیرو سے لاہور واپسی کے لئے طیارے میں سوار ہوتے وقت رابطہ کرنے پراعتزاز احسن نے اپنے وزیراعظم بنائے جانے کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے پہلے قومی اسمبلی کا رکن بننا یا ہونا پڑتا ہے اور وہ ایوان زیریں کے رکن نہیں ہیں، انہوں نے کہاکہ یقیناً ضمنی انتخاب میں کامیابی کے ذریعہ وزیراعظم بنا جاسکتا ہے لیکن اتنی مختصر مدت کے لئے میں کیوں وزیراعظم بننا چاہوں گا؟ ایک آئینی ماہر نے تصدیق کی کہ پیپلزپارٹی چاہے تو 30دن میں ضمنی انتخاب کراکر نیا وزیراعظم لاسکتی ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ گیلانی کو تبدیل کرنے کے ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدرزرداری صرف پیپلزپارٹی کی حکومت کی بقاء میں دلچسپی رکھتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاستی شطرنج کے گرانڈ ماسٹر صدر زرداری، گیلانی کو ہٹاکر اعتزاز احسن کو لانے کا مقصد ان کی جانب سے ایک اور جوا کھیلنا ہے جس کے تحت صدر سن 2013ءمیں عام انتخابات کے لئے مہم اعتزاز احسن اور آصفہ بھٹو زرداری کے ہاتھوں محفوظ سمجھتے ہیں۔اے پی ایس