لیاری آپریشن : حکومتی کروڑوں کا نقصان و لاکھوں افراد انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا شکار۔چودھری احسن پر یمی




وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ لیاری میں 48گھنٹے کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد نہ کوئی طوفان کھڑا ہوگا نہ ہی کوئی آپریشن شروع ہو گالیکن ٹارگٹ ایکشن جاری رہے گا. انہوں نے کہا کہ جو کچھ لیاری میں ہوا یہ ایک نچلی سطح کا ٹارگیٹڈ ایکشن تھا جو صرف چند گلیوں تک محدود تھا، ضرورت پڑنے پر مزید نفری طلب کی گئی یہاں تک کے میڈیا بھی پہنچ گیا اور پھر یہ آپریشن لگنے لگا. انہوں نے کہا کہ میں پولیس کی واپسی کی ذمہ داری قبول کر تا ہوں لیکن پولیس کو شکست نہیں ہوئی بلکہ یہ ٹیکٹکل ری پوزیشننگ ہے. لیاری میں کوئی ماورائے آئین و قانون اقدام نہیں ہوگا، لیاری ہمارا ہے، اسے تحفظ فراہم کیا جائے گا، لیاری میں لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کیا، وہاں کے عوام کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا. امن کمیٹی کالعدم ہے، غوث علی شاہ نے ان سے اظہار یکجہتی کیا ہے ، لیکن یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ نواز شریف سمیت جو بھی ان سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرے گا اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا، میرا نہیں خیال کہ نواز شریف جرائم پیشہ لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کریں گے. انہوں نے کہا کہ انہوں نے آج تک عزیر بلوچ کو نہیں دیکھا لیکن آج ہی انہیں حبیب جان کی طرف سے پیغا م ملا ہے کہ وہ مجبوری میں ان لوگوں سے ملا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ علیحدہ معاملہ کیا جائے گا۔کراچی کے علاقے لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا جانے والا آپریشن بلانتیجہ آنا فانا معطل کرنا پڑا۔پولیس کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیرِ داخلہ رحمان ملک کی جانب سے لیاری سے فوری انخلا کا حکم نامہ آیا ہے اور یہ انخلا اتنی جلد بازی میں کیا گیا کہ اس علاقے سے نکلتے ہوئے پولیس کے دو اہلکار گولیوں کا شکار ہوگئے۔ پولیس میں موجود مختلف حلقے وزیرِداخلہ کی جانب سے لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور انداز میں آپریشن کرنے کے عزم سے متاثر نظر آرہے تھے کہ وزیرِداخلہ کے خضدار کے دورے نے ان کے اندر بھری ہوا نکال دی اور انہیں آپریشن ختم کرنے کا حکم صادر کرنا پڑا۔پولیس وزیرِداخلہ کے اس طرح اچانک پینترا بدل دینے پر انگشتِ بدنداں رہ گئی تاہم پولیس افسران اور اہلکار اس راز سے پردہ اٹھانے سے یا تو قاصر ہیں یا پھر انہیں اپنی ملازمتوں کے جانے کا ڈر ہے۔آغازِ آپریشن کی وجہ لیاری میں شروع کیا جانے والا آپریشن کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی یا مناسب سامانِ حرب کے ساتھ نہیں شروع کیا گیا تھا بلکہ لیاری کے علاقے نوالین میں ایک مکان پر چھاپہ مارنے پر سی آئی ڈی پولیس کو جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ اس آپریشن کا سبب بنا۔سی آئی ڈی پولیس نے ایس پی چودھری اسلم کی سربراہی میں چند مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے لیاری کے علاقے نوالین کے ایک مکان پر چھاپہ مارا تاہم انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔چودھری اسلم نے مزید کمک منگوالی اور دوبارہ کارروائی شروع کی جس کے بعد انہیں راکٹ حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب کیا تھا، پولیس کی نفری مزید بڑھا دی گئی اور ملزمان کے گِرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔پولیس نے اپنی پوزیشن چیل چوک پر سنبھال کر رکھی تھی اور نوالین اور کلاکوٹ کی جانب راستے مسدود ہوکر رہ گئے جبکہ علاقہ مکین اپنے گھروں تک محصور ہوگئے۔پولیس کے مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ لیاری کے علاقے چیل چوک پر پولیس کارروائی ایک بڑے آپریشن میں تبدیل ہوگئی لیکن اس کے باوجود اعلی سطح پر ربط اور تعاون کے فقدان اور فیصلے کرنے میں اعلی حکام کی جانب سے کمزوری ایسے عوامل تھے جن کی وجہ سے پولیس کو سبکی ہوئی۔چونکہ یہ پولیس آپریشن ایک معمول کے چھاپہ کی کاروائی سے شروع ہوا تھا لہذا اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔اس آپریشن میں پولیس کے ریکارڈ کے مطابق چھتیس افراد ہلاک ہوئے جن میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔جانی نقصان کے علاوہ اس ایک ہفتے کے آپریشن کے دوران پولیس کو کم و بیش دو کروڑ روپے سے زیادہ کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔اس آپریشن میں پولیس کی چار بکتر بند گاڑیوں کو استعمال کیا گیا جن میں سے ایک بکتر بند گاڑی مکمل تباہ ہوگئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے استعمال میں رہنے والی ایک بکتر بند گاڑی کی لاگت تقریبا ایک کروڑ بائیس لاکھ روپے ہوتی ہے۔باقی کی تین بکتر بند گاڑیوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے اور اب ان کی مرمت سے پہلے انہیں کسی آپریشن کے لیے استعمال کیا جانا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ ان کی مرمت کے لیے بھی فنڈز درکار ہوں گے۔اس آپریشن میں پولیس کے سات سو اہلکاروں نے حصہ لیا جنہوں نے درمیانے اور بھاری اسلحہ کے ذریعے گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا جبکہ ان کے یومیہ کھانے اور آمدورفت کے لیے ڈیزل اور پٹرول کے اخراجات بھی لاکھوں روپے میں رہے۔دوبارہ آپریشن گزشتہ کی رات گارڈن پولیس ہیڈکوارٹرز میں حسبِ روایت پولیس کے سالانہ طعام کا اہتمام کیا گیا جسے بڑا کھانا کہا جاتا ہے۔ اس تقریب میں سندھ پولیس کے آئی جی مشتاق شاہ نے کہا ہے کہ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن اتوار کی رات بارہ بجے دوبارہ شروع کیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ آپریشن معطل کرنے کی وجہ علاقے میں موجود جرائم پیشہ افراد کو ہتھیار ڈالنے کی مہلت دینا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مہلت دینے کے لیے علاقے سے پولیس کے انخلا کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔اپریل کے آخری ہفتے شروع ہونے والے اس آپریشن کے علاقے کے لوگوں پر سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی نتائج کیا ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے لاحاصل، بغیر منصوبہ بندی اور اعلی سطح پر ربط میں
کمی کے باعث اس آپریشن پر عوام کے کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔یہاں عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتوار کو شروع کیے جانے والے آپریشن میں کیا مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے جائیں گے یا اسے بھی اچانک کسی موڑ پر روک دیا جائے گا۔پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کی قدیم آبادی لیاری ایک ہفتے سے پولیس کے محاصرے میں ہے۔ بیس لاکھ لوگ اس آپریشن سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں جب کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تقریبا تین لاکھ افراد گھروں میں قید ہیں۔جبکہ اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ پولیس ممتاز سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کو بھی علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کی مد سے روک رہی ہے۔حالانکہ ایدھی کوغزہ اور بیروت جیسے علاقوں میں امدادی کام کرنے سے نہیں روکا گیالیکن اپنے ہی شہر میں لوگوں کی مدد سے یہ کہہ کر روکا جارہا ہے کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پولیس منظم انداز میں لیاری پر ٹوٹ پڑی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر پولیس آپریشن نہ روکا گیا تو مزید معصوم جانوں کا زیاں ہوسکتا ہے۔دو سو سے زائد سرکاری اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے ایک ہفتے سے بند ہیں۔ فائرنگ کی گنج گرج نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے اور زیادہ تر بچے دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آتے ہیں۔آپریشن کے چھٹے روز جب لیاری کے مکین آٹھ چوک پرمظاہرہ کر رہے تب پولیس کی بکتر بند گاڑی نے ایک بچے کو کچل ڈالا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ لیاری کے علاقے چیل چوک میں پولیس کے داخل ہونے کا منظر کسی مفتوحہ علاقے سے مختلف نہیں۔ کوئی دروازہ،گھر اور بجلی کا کھمبا ایسا نہیں جس پر گولیوں کے نشانات نہ ہوں ایک ہفتے سے محصور لیاری کے لاکھوں افراد انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا شکار ہیں۔آپریشن کے چھٹے روز جب میں لیاری کی مختلف گلیوں سے گزر رہا تھا کہ ایک گھر کے اندر بہت تکلیف دہ منظر دیکھا، وہاں پڑی ایک میت کو غسل دینے کے لیے پانی تک نہیں تھا۔ صورت حال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لیاری کے تمام چھوٹے بڑے طبی مراکز بند ہیں، نہ تو زخمی کا علاج ہوتا ہے اور نہ ہی علاقے سے باہر لوگوں کو جانے دیا جاتا ہے۔ خسرہ، اسہال اور ملیریا سمیت دیگر وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں جب کہ سب سے زیادہ اثر حاملہ خواتین پر ہوا ہے۔سندھ پولیس کے سربراہ مشتاق شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیاری آپریشن کے خاتمے کا اشارہ تو دیا لیکن پولیس کو حاصل ہونے والی کسی کامیابی کا ذکر نہیں کیا۔گزشتہ روز ایک سینیئر پولیس افیسر نے لیاری کے پچھتر فیصد علاقے کو اپنے کنٹرول میں لینے کا دعوی کیا لیکن عملا پولیس آج بھی وہاں کھڑی ہے جہاں ایک ہفتہ قبل تھی۔ اب تک ایسی کوئی چیز نہیں جسے پولیس اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرسکے۔ آپریشن کے ساتویں روز افشانی گلی میں مقامی ٹی وی کی وین پر پولیس نے اس وقت حملہ کیا جب وہ علاقے کی کوریج کر کے واپس آ رہی تھی۔پولیس کا موقف ہے کہ کالعدم امن کمیٹی نے علاقہ مکینوں کو یرغمال بنایا ہے اسی لیے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر پولیس کے پاس علاقے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کا متبادل منصوبہ کیا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکام کے پاس نہیں۔کیا محاصرے، بجلی، گیس، پانی کی بندش اور اشیا خورد و نوش کی عدم دستیابی کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جنگ کو جیت سکیں گے۔لیاری میں حساس تصور کیے جانے والے علاقے سنگھولین کے مکینون نے بتایا کہ پولیس گردی بند نہ ہوئی تو علاقے کے عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔لیاری سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول پولیس آپریشن کی ناکامی کا اعترف کرتے ہوئے رینجرز کے ذریعے کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کیا رینجرز کی حکمت عملی پولیس سے مختلف ہوگی۔پولیس جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی چاہتی ہے اور یہ پولیس کا فرض بھی ہے لیکن چند جرائم پیشہ افراد کی سزا لاکھوں معصوموں کو دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ حکومت نے لیاری سے نقل مکانی کرنے والوں کے لیے جو کیمپ قائم کیے تھے ان کی طرف کوئی نہیں گیا۔ لیاری اپنے محل وقوع کے اعتبار سے کراچی کا انتہائی اہمعلاقہ ہے۔ لیاری سے متصل اولڈ سٹی ایریا میں شہر کے تمام بڑے تجارتی مراکز ہیں اور یہاں حالات کی خرابی پورے شہر کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔اے پی ایس