صدر زرداری کے خلاف سوئس کیس کا معاملہ۔چودھری احسن پریمی



سوئس حکام نے حکومتِ پاکستان کو مطلع کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ نہیں کھولے جا سکتے ہیں۔ یہ اطلاع پاکستان کی وزارتِ قانون کو موصول ہونے والے ایک خط میں کہی گئی ہے۔وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے سوئس حکام کی جانب سے بھجوائے گئے خط کی تصدیق کی ہے جبکہ وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ سوئس حکومت کے فیصلے نے حکومتِ پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے۔ وزارت قانون کو ملنے والے خط میں سوئس حکام نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کو بطور صدر عالمی طور پر استثنی حاصل ہے اس لیے جب تک وہ اس عہدے پر فائز ہیں ان کے خلاف کسی بھی قسم کے مقدمات پر کارروائی شروع نہیں ہو سکتی۔واضح رہے کہ این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھلوانے کے لیے سوئس حکام کو خط تحریر کرنے کا حکم دیا تھا۔اسی عدالتی حکم کی عدم تعمیل پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی تھی اور انہیں گزشتہ برس انیس جون کو پانچ سال کے لیے انتخابات میں شرکت اور کوئی عوامی عہدہ سنبھالنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔ان کی جگہ ملک کے وزیراعظم بننے والے راجہ پرویز اشرف کو بھی سپریم کورٹ نے ابتدائی طور پر خط نہ لکھنے پر توہینِ عدالت کے مقدمے میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔تاہم حکومت اور عدلیہ کے طویل قانونی تنازع کے بعد سوئٹزرلینڈ کے حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے گزشتہ برس نومبر میں خط بھیج دیا گیا تھا۔خیال رہے کہ انیس سو نوے کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی میاں نواز شریف کی حکومت نے کسٹم انسپیکشن کے ٹھیکوں میں سوئس کمپنیوں سے بارہ ملین ڈالر کمیشن لینے کے الزام میں بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور دیگر پر مقدمات قائم کیے تھے۔اس وقت کی حکومت نے بعد میں سوئس حکام سے خط و کتابت کی اور سوئٹزرلینڈ میں مقدمات قائم ہوئے لیکن سنہ دو ہزار سات میں جنرل پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو میں سمجھوتے کے نتیجے میں قومی مصالحت آرڈیننس این آر او جاری ہوا اور وہ مقدمات واپس لیے گئے تھے۔پاکستان کی حکومت نے عدلیہ سے طویل قانونی تنازع کے بعد آخرکار سوئٹزرلینڈ کے حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط بھیجا تھا۔صدرِ پاکستان کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ ایوان صدر کا اس خط سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیاں خط کے جس مسودے پر اتفاق ہوا تھا وہ حکومت نے بھجوا یا تھا۔ان کے بقول یہ خط پاکستان کی وزارت خارجہ نے سوئز حکام کو بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین اور عالمی قوانین کے تحت صدرِ پاکستان کو استثنی حاصل ہے۔ سن دو ہزار سات میں جنرل پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو میں سمجھوتے کے نتیجے میں قومی مصالحت آرڈیننس این آر او جاری ہوا اور وہ مقدمات واپس لیے گئے۔تین نومبر دو ہزار سات کو جب پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو بینظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے خلاف تحریک شروع کی اور سمجھوتہ ختم کر دیا۔ ستائیس دسمبر سن دو ہزار سات کو راولپنڈی میں جلسے کے بعد بینظیر بھٹو ایک حملے میں ہلاک ہو گئیں۔دو ہزار آٹھ میں ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور نومبر دو ہزار نو میں سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا اور حکومت سے کہا کہ وہ سوئز حکام کو مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط لکھیں۔حکومت اور عدلیہ میں طویل قانونی تنازعہ چلا اور حکومت کہتی رہی کہ صدرِ پاکستان کو آئین اور عالمی قوانین کے تحت استثنی حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے اپنے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو قربان کیا اور عدلیہ نے انہیں خط نہ لکھنے کے جرم میں توہین عدالت کے کیس میں نا اہل قرار دے دیا۔لیکن بعد میں حکومت مان گئی اور سپریم کورٹ کی رضا مندی سے خط کا مسودہ تیار کر کے سوئز حکام کو بھیج دیا ۔اس ضمن میں عدالت نے گزشتہ سال کے بارہ نومبر تک حکومت کو مہلت دے رکھی تھی۔ جبکہ حکومت کے خط لکھنے پرپاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او عمل درآمد کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا ۔کیونکہ آٹھ اگست کو سپریم کورٹ نے این آر او پر عمل درآمد کے مقدمے میں عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق حکومت نے سوئس حکام کو خط بھجوا دیا ہے۔ سماعت کے دوران وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں سوئس حکام کو خط بھجوانے سے متعلق دستاویزات پیش کیں۔ ان دستاویزات کے ساتھ پاکستانی سفیر کے خط موصول ہونے اور اس کے بعد سفیر کیجانب سے لکھے گیے خط کی کاپی بھی عدالت میں پیش کی۔صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات شروع کرنے اور ختم کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے اٹارنی جنرل نے سوئس اٹارنی جنرل کو خطوط لکھے تھے جبکہ اس مقدمات کی بحالی کے لیے سیکرٹری قانون کی طرف سے خط لکھا گیا ۔واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے عدلیہ سے طویل قانونی تنازعے کے بعد سات نومبر کو سوئٹزرلینڈ کے حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے لیے خط بھیجا تھا۔سپریم کورٹ نے سولہ دسمبر سنہ دوہزار نو کو این آر او کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس آرڈیننس سے مستفید ہونے والوں کے خلاف مقدمات اسی دن سے دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس روز سے یہ آرڈیننس لاگو کیا گیا تھا۔وزیر قانون نے کہا کہ این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے کے پیراگراف ایک سو اٹھتر پر مکمل طور پر عمل درآمد کردیا گیا ہے اس لیے عدالت وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لیا جائے۔ اس پیراگراف میں سپریم کورٹ نے حکومت کو سوئس مقدمات پر کارروائی دوبارہ شروع کرنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے کوکہا تھا۔یہ مقدمات صدر اصف علی زردرای کے خلاف تھے جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان معاہدہ طے پانے کے بعد یہ مقدمات واپس لیے گئے تھے۔وزیر قانون کی استدعا پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لے لیا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے این ار او عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مجرم قرار دیا تھا جس کے بعد انہیں وزارات عظمی سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔سماعت کے بعد فاروق ایچ نائیک نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اداروں کے درمیان تصادم نہیں چاہتی۔ انھوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کی بڑی عزت کرتے ہیں، اسی لیے ان کے حکم کی تعمیل میں خط لکھا ہے۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے سوئس حکام کو لکھے جانے والے خط کے تدوین شدہ مسودے کی منظوری دی تھی۔تاہم عدالت نے اس مقدمے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں وزیراعظم پاکستان کے خلاف توہینِ عدالت کے نوٹس کو فوری طور پر واپس لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت شروع کی تو وفاقی وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مسودہ پیش کرتے ہوئے کہا تھاکہ حکومت جمہوریت کا فروغ اور اداروں کا استحکام چاہتی ہے۔جج صاحبان نے مسودے کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی کارروائی کچھ دیر کے لیے روک دی اور مشاورت کے لیے اپنے چیمبرز میں چلے گئے۔جب کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت کا کہنا تھا کہ خط کا مسودہ این آر و قانون کی شق ایک سو اٹھہتر سے مطابقت رکھتا ہے۔خط کے متن میں لکھا گیا کہ ملک قیوم کا خط واپس لیا جائے اور اسے ایسا تصور کیا جائے کہ جیسے یہ کبھی لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت صدرِ پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔عدالت کی جانب سے خط کا مسودہ منظور کیے جانے کے بعد وزیرِ قانون نے کہا کہ اب جبکہ عدالت خط سے مطمئن ہے تو وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کا نوٹس واپس لے لیا جائے۔تاہم عدالت نے فی الحال یہ نوٹس واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سوئس اٹارنی جنرل کی جانب سے اس خط کی وصولی کی تصدیق نہیں ہو جاتی ایسا ممکن نہیں ہے۔عدالت کے استفسار پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ یہ خط وزارتِ خارجہ کے ذریعے سوئٹزرلینڈ میں پاکستانی سفیر کو بھجوایا جائے گا اور وہ خود یا ان کا نمائندہ اسے سوئس اٹارنی جنرل کے حوالے کریں گے۔وزیرِ قانون نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کو خط سوئس حکام تک پہنچانے کے لیے چار ہفتے کی مہلت درکار ہے جسے عدالت نے منظور کر لیا اور کہا کہ چار ہفتے بعد اس کی وصولی کی رسید عدالت میں پیش کی جائے۔سماعت کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیرِ قانون فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے خط کا مسودہ منظور کیے جانے کے بعد غیریقینی کی صورتحال ختم ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی قومی دولت نہیں لوٹی گئی اور صدرِ مملکت کے ٹرائل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آج انصاف اور قانون کی فتح ہوئی ہے۔اے پی ایس