جمہوری عدم استحکام کا خدشہ۔چودھری احسن پریمی



پاکستان کے سیاسی ماحول کا درجہ حرارت بتدریج بڑھتا جارہا ہے اور حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان لفظوں کی جنگ اور ایک دوسرے پر دشنام ترازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔اوائل ہفتہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کی کینیڈا سے وطن واپسی سے پیدا ہونے والی سیاسی گہما گہمی ابھی کچھ کم ہوئی ہی تھی کہ مرکز میں حزب مخالف کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے مطالبات کا جواب نہ ملنے پر حکومت کے خلاف 14 اگست کو ملین مارچ کا اعلان کردیا۔بہاولپور میں اپنی جماعت کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر حکمران مسلم لیگ ن پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے چار سوالات پوچھے اور حکومت سے ان کا ایک ماہ میں جواب پیش کرنے کا کہا۔لیکن گزشتہ ہفتہ کو حکومتی ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کے چاروں سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے انھیں تحمل و برداشت کا مشورہ دیا۔پی ٹی آئی کے سربراہ کہنا تھا کہ انتخابی نتائج آنے سے پہلے مسلم لیگ ن کے قائد سے تقریر کس نے کروائی، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا الیکشن میں کیا کردار تھا، ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ماتحت کیوں نہیں تھے اور پنجاب میں نگران حکومت کی انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کا اس میں کیا کردار تھا۔پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ 11 مئی کو پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد جب مختلف حلقوں سے نتائج آنا شروع ہوئے اور ان میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے حریفوں کی نسبت ووٹ بہت زیادہ تھے جس انھوں نے اپنے قائد نواز شریف سے یہ “وکٹری اسپیچ” کروائی۔”یہ ہمارا مطالبہ نہیں تھا یہ تو عمران خان صاحب کا مطالبہ تھا کہ ریٹرننگ افسران عدلیہ سے مقرر کیے جائیں۔۔۔پیپلز پارٹی کی طرف سے (نگران وزیراعلیٰ کےلیے) نجم سیٹھی کا نام آیا تھا چونکہ ہمارے تجویز کردہ ناموں کو تسلیم نہیں کیا گیا تو پھر ہم نے نجم صاحب کے نام کو تسلیم کیا۔”انھوں نے ایک بار پھر دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر نجم سیٹھی نے پنجاب بھی دھاندلی کروائی ہوتی تو راولپنڈی میں اپنی روایتی نشست پر مسلم لیگ کو کیوں شکست ہوتی۔راولپنڈی کے ایک حلقے سے مسلم لیگ ن کے امیدوار حنیف عباسی کو عمران خان کے مقابلے میں شکست ہوئی تھی۔ادھر حزب مخالف کی ایک اور جماعت مسلم لیگ ق نے بھی تحریک انصاف کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر انتخابات میں دھاندلی کے مرتکب عناصر کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔جماعت کے ایک مرکزی رہنما پرویز الہی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ “ایسے لوگ جنہوں نے ووٹ کے تقدس کا پامال کیا انھیں بے نقاب کیا جائے اور جب وہ بے نقاب ہو جائیں تو پھر انھیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔”تاہم وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عوام نے عام انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کردیا جس کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔”ہم سمجھتے ہیں کہ عوام نے اپنے رائے کا اظہار کردیا بیلٹ باکس کے ذریعے۔۔۔ساری دنیا میں یہی مہذب طریقہ ہے۔”ملک کے شمال مغرب میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی اور شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے لاکھوں افراد کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی مبصرین یہ کہتے آرہے ہیں کہ ملک اس وقت کسی بھی سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور تمام سیاسی قائدین کو معاملہ فہمی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا ہے۔ صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں عوامی جلسے سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر مطالبات نہ مانے گئے تو 14اگست کو اسلام آباد میں’سونامی مارچ‘ کریں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مارچ میں کم از کم 10لاکھ افراد جمع کریں گے۔عمران خان نے کئی مطالبات پیش کئے۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ 11مئی کے انتخابات والی رات 11 بج کر 20منٹ پر، جبکہ صرف 15 فیصد انتخابی نتائج آئے تھے میاں نواز شریف نے کس کے کہنے پر ’وکٹری اسپیچ‘ کی؟ دوسرے مطالبے کے طور پر انہوں نے کہا کہ، ’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا الیکشن میں کیا رول تھا؟‘۔ان کا کہنا تھا کہ’35حلقوں میں ووٹ مسترد کرنے کا حکم کس نے دیا؟‘ عمران خان نے کہا کہ الیکشن کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے، ’فافین‘ کی رپورٹ کے مطابق جو 90 فہرستوں میں تبدیلیاں ہوئیں وہ کس کے حکم پر ہوئیں؟۔عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پنجاب پولیس نے کسی پر بھی گولی چلائی تو اس کے خلاف وہ خود سخت ترین کارروائی کریں گے۔ خطاب کے دوران انہوں نے دوسری جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملکر چلنے کی دعوت دی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ نئے پاکستان کے لئے نیا الیکشن کمیشن بنایا جائے۔عمران خان کے مذکورہ مطالبات بہاولپور میں ہونے والے جلسے سے متعلق اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب کے وزیرقانون رانا مشہود کا کہنا ہے کہ عمران خان کی الزام تراشی سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔ بقول ا ±ن کے ’عوام اب اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ خیبر پختونخواہ میں کون کون سی تبدیلیاں لائے ہیں؟‘۔وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ ن کے رہنما،خواجہ سعدرفیق نے اپنے رد عمل میں کہا کہ عمران خان کہتے ہیں10لاکھ لوگ آئیں گے،وقت پردیکھیں گے کہ10لاکھ ہیں یا10ہزار۔ادھر، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔ وفاقی حکومت نے عمران خان کی جانب سے اٹھائے گئے چار سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہیں تجویز دی ہے کہ 10 لاکھ افراد کو اسلام آباد جمع کرنے پر اوسطاً جو دو ارب روپے کے اخراجات آئیں گے وہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین پر خرچ کئے جائیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات اور قومی ورثہ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان چار سوالوں کے جواب طلب کرنے کیلئے دو ارب روپے کا خرچہ کریں گے، 10 لاکھ افراد کو اسلام آباد لانے کا اعلان کیا ہے اس پر دو ارب روپے خرچ ہوں گے، یہ دو ارب روپیہ آئی ڈی پیز کیلئے صرف کرنے کی غرض سے ان کے چار سوالوں کا جواب ہم نے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کا پہلا سوال رات 11 بج کر 15 منٹ پر تقریر کے حوالے سے تھا، یہ سوال وہ کافی عرصہ سے پوچھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 5 بجے پولنگ بند ہوجاتی ہے اور گنتی کے بعد دو گھنٹے تک نتائج آنا شروع ہوجاتے ہیں، فیصلہ ہوجاتا ہے کہ کون جیت رہا ہے۔ ایک سو بیس سے زیادہ حلقوں کے نتائج کا اعلان کردیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ان میں مسلم لیگ (ن) انتخاب جیت چکی تھی۔ یہ تمام چیلنز نے کہا کہ (ن) لیگ الیکشن جیت رہی ہے۔پرویز رشید نے کہا کہ مسلم لیگ ہاو ¿س میں جمع ہونے والوں سے نواز شریف کا خطاب میں نے کروایا تھا اس پر میں سزا کیلئے تیار ہوں۔ اپنے ورکروں سے خطاب اور اچھے کاموں کی دعا کی استدعا کرانا جرم ہے تو میرے خلاف مقدمہ درج کروا دیں۔ تقریر کرانے کا جرم میں نے کیا۔عمران خان کا دوسرا سوال ریٹرننگ آفیسر اور عدلیہ کے ملاپ کے حوالے سے ہے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن سے خود مطالبہ کیا تھا کہ ریٹرننگ آفیسران عدلیہ سے لئے جائیں۔ یہ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی یا دیگر جماعتوں کا مطالبہ نہیں تھا۔یو ٹرن عمران خان کا پرانا وطیرہ بن چکا ہے۔پرویز رشید نے کہا کہ نگران حکومتوں کے بارے میں ان کا سوال تھا۔ ہم نے جسٹس شاکر اللہ جان، جسٹس ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کا نام دیا۔ پی پی پی نے بھی تین نام دیئے۔ آئین کے تحت ہم نے ہی اس کا تقرر کرنا تھا۔ اس حوالے سے کمیٹی قائم کی گئی تھی تاہم تین دن کے اجلاسوں کے باوجود ہم تقرر نہیں کرسکے۔ پھر معاملہ سپریم کورٹ میں گیا۔ پنجاب میں ہم نے جو دو نام دیئے ان کو تسلیم نہیں کیاگیا۔ نجم سیٹھی کا نام پیپلز پارٹی نے دیا نجم سیٹھی نے بطور نگران وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری جو انتہائی دیانتدار آفیسر تھے جن کا دامن صاف تھا ان کو تبدیل کرکے قمر زمان کو تعینات کیا۔انہوں نے کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ سے عمران خان نے اس وقت ملاقات کی اور کہا کہ قمر الزمان کا تعلق (ن) لیگ سے ہے ان کو علم ہوا تو انہوں نے خود ہی انکارکردیا۔پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان کے نجم سیٹھی کے ساتھ اتنے تعلقات تھے کہ چیف سیکرٹری تبدیل کرادیا۔ شبہاز شریف کے ساتھ کام کرنے والے تمام آفیسران کو تبدیل کردیا گیا۔ ہماری وجہ سے
ایماندار آفیسران نشانہ بنے، چیف سیکرٹری سے چپڑاسی تک تبدیلی کیا گیا۔ سیکرٹری داخلہ ان کے مشیر تھے۔ راو ¿ افتخار، پرویز الہیٰ کے ناک کا بال تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہماری حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے وقت وہ سیکرٹری داخلہ لگائے گئے ان کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگایا گیا۔ پرویز الٰہی کے پی آر او کو ڈی جی پی آر میں سربراہ تعینات کرایا گیا۔ جن آفیسران نے ہمارے کارکنوں پر تشدد کیا ان کو جیلوں میں ڈالا ، ان کو لاکر تعینات کیا گیا۔پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نواز شریف کے مدمقابل تحریک انصاف کی امید وار تھیں۔ ان کا حقیقی بھائی جو صوبائی سیکرٹری صحت تھے ان کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ اس پر تنقید (ن) لیگ کو کرنی چاہئے تاہم ہم نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے اس کا جواب ایک سال میں دے سکتے تھے تاہم نہیں دیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا چوتھا سوال 35 حلقوں میں انتخابی نتائج تبدیل کرنے کے بارے میں ہے۔ قومی اسمبلی کے 77 سے زائد حلقوں میں ان کے امیدوار 8 فیصد تک ووٹ نہیں لے سکے۔ صوبائی اسمبلی کے 100 سے زائد حلقوں میں ان کے امیدوار ہی نہیں تھے۔ پنکچر لگائے ہوتے تو راولپنڈی این اے 56 جہاں سے ہمیشہ ہم جیتے ہمارے پاس ایسا اختیار ہوتا تو ہم پوری ٹیوب پھاڑ لیتے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے چار سوالوں کے جواب دے دیئے۔ اب نقل مکانی کرنے والوں پر یہ دو ارب لگا دیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو عوام بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دے دیتے ہیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے مینڈیٹ مل جاتا ہے اور حالات بہتری کی طرف آنا شروع ہو جاتے ہیں تو کیوں طاہر القادری آن ٹپک پڑتے ہیں اور عمران خان جھوٹے سوالات اٹھانا شروع کر دیتے ہیں، ساری دنیا میں بیلٹ کے ذریعے ہی اختیارات منتقل ہوتے ہیں۔پرویز رشید نے کہا کہ اب پاکستان تبدیل ہو چکا ہے، 2014ءکا پاکستان جمہوری ہے یہ اس طرح کے تماشوں سے تبدیل نہیں ہو گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ارسلان افتخار کے حوالہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان نے وضاحت کر دی ہے، نجم سیٹھی پی پی کے نامزد وزیراعلیٰ تھے، ہم نے ان کی نیت پر شک نہیں کیا تھا۔پرویز رشید نے کہا کہ پی سی بی کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، بنگلہ دیش کے دورہ میں انہوں نے بڑی کوششیں کیں۔ وہ کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کی خدمت کرتے ہیں، ہم سب سے کام لینا چاہتے ہیں، ہم عمران خان سے بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔وزیر اطلاعات کے مطابق عمران خان آئی ڈی پیز کی خدمت کریں، ہم سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرتے، نواز شریف نے انتخابی عمل میں اپنے کسی سیاسی حریف کے خلاف تقریر نہیں کی، ہم رواداری اور تحمل پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لاہور کے واقعہ پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا ہے، ہم نے اپنے وزیر سے استعفیٰ لیا، کیا اس کی مثال پہلے ہے۔ اس طرح کے واقعات ہر جگہ ہوتے ہیں تاہم اس وقت تو سوالات نہیں اٹھائے جاتے، یہ انصاف اور وضع داری ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی میں عمران خان کے تین اراکین شامل ہیں، ہم سب اصلاحات چاہتے ہیں، 2013ءکے انتخابات ماضی میں ہونے والے تمام انتخابات سے زیادہ شفاف تھے تاہم اس میں بھی مزید بہتری کی گنجائش ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کے حوالہ سے اے پی سی میں عمران خان کو دعوت دیں گے کہ وہ ضرور شرکت کریں، یہ حکومت کا نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 4 حلقوں کے حوالہ سے چھان بین کا اختیار حکومت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ حامد خان والے حلقہ میں 90 سے زائد بار کیس ملتوی کیا گیا، خان صاحب کے وکلاءاگر عدالتوں میں پیش نہ ہوں تو اس میں ہمارا قصور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے منفی سیاست کرنے والوں کے حوالہ سے ٹانگیں کھینچنے کی بات کی گئی ہے، عمران خان، طاہر القادری اور دیگر اس کی واضح مثال ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے شاہد آفریدی کی آئی ڈی پیز کیلئے دو ٹیمیں بنا کر دوستانہ میچ کھیلنے پر آمادگی کا انہیں علم نہیں تاہم ہم ان کی سیاست اور کھیل سے مستفید ہونے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی ٹیم ہار گئی تو وہ شکست تسلیم کر لیں گے لیکن کیا عمران خان بھی ہار تسلیم کریں گے؟ وہ اس وقت سیاست میں بھی بال ٹمپرنگ کر رہے ہیں۔پرویز رشید نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعظم کے دورہ بنوں کے موقع پر ان کے ہمراہ تھے، ان کا رویہ مثبت ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بعض حلقے یہ باتیں کر رہے ہیں کہ عمران خان کو ہسپتال کیلئے خیرات میں ملنے والی بیرون ملک سے رقم سیاست کیلئے استعمال ہو رہی ہے، خود امریکہ سے ان کے کارکن بھی اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔پاکستان میں موسم میں حدت کے اضافے کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں بھی خاصی گرمی دیکھی جارہی ہے جہاں حکومت مخالف جماعتوں کی طرف سے حکمران مسلم لیگ ن کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع کرنے کے اعلانات آئے روز سامنے آ رہے ہیں۔سابق کرکٹر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف گو کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں ہے لیکن مرکز میں وہ حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت ہے۔اس جماعت نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہفتہ وار احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ہر جمعہ کو ان کے کارکن اور رہنما الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔تحریک انصاف کا موقف ہے کہ مسلم لیگ ن نے مختلف حلقوں میں مبینہ طور پر دھاندلی کر کے نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ جماعت دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنا رکھی ہے لیکن وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف باآواز بلند احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔حکومت اس ساری سیاسی گرما گرمی کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہتی آئی ہے کہ احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن حکومتی عہدیداروں کے بقول مخالفین کا رویہ اور طریقہ کار نامناسب ہے۔تحریک انصاف کے قانون ساز عارف علوی کا کہنا ہے کہ منصفانہ انتخابات کی بات کرنے کو جمہوریت مخالف نہیں کہا جاسکتا ہے۔”اگر منصفانہ انتخابات کے لیے کوئی بات کی جائے تو کیا یہ جمہوریت کی مخالفت ہے؟ ہر عام آدمی یہی کہے گا کہ یہ جمہوریت کی شان ہے کہ منصفانہ انتخابات ہوں۔ ان (حکومت) کے پاس منطقی دلائل باقی نہیں رہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ چار حلقوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر چلا لیں۔”وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان بالا کے چیئرمین کو ایک خط لکھ کر انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا کہا ہے۔تاہم انتخابی اصلاحات کے بارے میں بہت سا کام سابقہ حکومت کر چکی ہے اور باقی موجودہ حکومت کرنے جا رہی ہے۔”ایک تو یہ کہا گیا کہ دنیا میں رائج جدید ٹیکنالوجی جس سے یہ یقین دہانی ہو سکے کہ انتخابات میں کسی طرح کی کوئی جعل سازی ممکن نہ ہو وہ متعارف کروانے کے لیے سفارش کریں، اس سے بھی اہم بات کہ اگر الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے اس نظام کو مضبوط بنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی ضروری ہے تو وہ سب مل کر سفارش کریں۔”یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی اکثر جماعتوں کی طرف سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو یہ یقین دہانی کروا چکی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی غیر جمہوری طریقے کی حمایت نہیں کرے گی۔نواز حکومت کو جہاں مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے وہیں سیاسی منظر نامے میں ہلچل اس کے لیے ایک نئے امتحان کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر آئے روز جلسے کرنے کے علاوہ حکومت کو اس کے بقول ناقص طرز حکمرانی پر ہدف تنقید بناتی آ رہی ہے۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے رہنماو ¿ں کے درمیان لفظوں کی جنگ اور دشنام ترازیاں تو جاری ہی تھیں کہ اب کینیڈا میں مقیم پاکستان عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری نے پاکستان آنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا عندیہ دیا تھا۔تاہم وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے الزام عائد کیا تھاکہ طاہر القادری ایک منصوبے کے تحت ملک کے آئین اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان آ ئے ہیں۔”باہر سے کینیڈا سے ایک آدمی آئے گا جس کے ذمے یہ کام ہوگا کہ اب وہ پاکستان کے آئین پر حملہ آور ہوگا۔۔۔ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت کا تحفظ کریں گے، آئین کا تحفظ کریں گے اور اپنے دفاعی اداروں کا تحفظ کریں گے۔” کینیڈا سے وڈیو لنک کے ذریعے پاکستان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں نہ صرف نا کام ہوگئی ہے بلکہ ان کے بقول اس نے ملک کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔طاہر القادری نے گزشتہ سال جنوری میں ہزاروں افراد کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تھا اور تقریباً تین روز تک وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے قریب واقع ڈی چوک میں دھرنا دیے رکھا۔ان کا مطالبہ تھا کہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں کیونکہ ان کے بقول موجودہ نظام میں انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری کویقینی بنانا ممکن نہیں۔مئی 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن واضح اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات اور مبینہ بے ضابطگیوں کی شکایات کی جاتی رہی ہیں۔اے پی ایس