وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ امریکہ۔چودھری احسن پریمی



 وزیراعظم نواز شریف نے عالمی برادری کو یہ بتایا ہے کہ مشکلات کے باجود ان کی حکومت چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے اور دنیا خصوصاً خطے میں امن و سلامتی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہے۔حالیہ دنوںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ مشیر برائے قومی سلامتی و ا ±مور خارجہ سرتاج عزیز کے علاوہ معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے امن مشن سے متعلق ایک اجلاس میں بھی شرکت کی جس میں امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن کے علاوہ کئی دیگر عالمی رہنما بھی شریک ہوئے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی کئی عالمی رہنماو ¿ں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں ۔وزیراعظم ایک ایسے وقت بیرون ملک گئے جب ان کی حکومت کے خلاف ایک ماہ سے زائد عرصے سے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں اور ان جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو لے کر ملک میں شدید سیاسی کشیدگی پائی جارہی ہے۔بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری کشیدگی کے تناظر میں وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب شاید زیادہ پراثر نہ ہو۔ لیکن مبصرین کی اکثریت اسے ملک اور خطے کو درپیش چیلنجز میں پاکستان کا موقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کا ایک اچھا اور اہم موقع قرار دیا ہے۔جبکہ وزیر اعظم کے اس دورے کو انہوں نے نتیجہ خیز قرار دیا ہے۔ کیو نکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو تقاریر ہوتی ہیں وہ کوئی معمول کی کارروائی نہیں ہوتیں۔ اس میں خصوصی طور پر وہ ممالک جو مشکلات کا شکار ہیں یا ترقی یافتہ ہیں، ماضی میں کسی مشکل میں رہ چکے ہیں اور آئندہ اپنا کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں ان کی بات کو سنا جاتا ہے۔ وزیراعظم اپنا موقف ہندوستان کے حوالے سے، جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے، امریکہ کے ساتھ افغانستان میں اتحاد اور وہاں استحکام کے حوالے سے جو بات کی ہے دنیا کے میڈیا نے اسے سنا اور دیکھا بھی ہے۔جبکہ دنیا کے دیگر رہنماوں نے اس کو نوٹ بھی کیا ہے۔جبکہ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے فوری طور پر حل ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔دوسری طرح حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ اپنے احتجاج کو اب ملک گیر سطح تک بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔جبکہ وزیرِاعظم نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل ہونا چاہیے اور یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری بھی ہے۔جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اقوام متحدہ نے تقریباً چھ دہائیاں قبل کشمیر میں رائے شماری کرانے سے متعلق قرارداد منظور کی تھی اور جموں، کشمیر کے عوام تاحال اس وعدے کے پورا ہونے کے انتظار میں ہیں۔انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر پردہ نہیں ڈال سکتے ہیں جب تک اس کو جموں و کشمیرکے عوام کے خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہے اور ہماری کشمیری عوام کے حق خود ارادی پر حمایت اور مدد جاری رہی گی کشمیر کے مسئلے میں فریق ہونے کے ناطے یہ ہمارا تاریخی وعدہ اور ذمہ داری ہے۔ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کو خواہاں ہے اور یہ تعلقات برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہونے چاہیے۔وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان خارجہ سیکرٹریری سطح پر مذاکرات ملتوی ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ہمیں بھارت کی جانب سے سیکریٹری سطح کے مذاکرات منسوخ کرنے سے مایوسی ہوئی اور بین الاقوامی برادری نے بھی اس کو ایک اور موقع کھو دینے کے طور پر دیکھا۔ پاکستان اس بات پر قائل رہے گا کہ ہمیں تنازعات کے حل اور تجارتی، معاشی تعلقات کے فروغ کے لیے بات چیت کا عمل جاری رکھنا چاہیے اور ہمیں امن کے فوائد کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔انھوں نے افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان کے خواہاں ہیں اور افغانستان کے مسئلے کا وہاں کی عوام کی مرضی کے مطابق حل چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کو عالمی خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں ہونی چاہیں۔جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے علاوہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون سمیت دنیا بھر کے متعدد رہنماو ¿ں سے ملاقات کی۔وزیراعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل پاکستانی سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے نیویارک میں پاکستانی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان بھارت کے دباو ¿ میں آئے اور اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ نہ اٹھائے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر میں جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان امن کی راہ میں ایک بڑی رکاو ¿ٹ مسیلہ کشمیر کا حل نہ ہونا ہے۔ دونوں ممالک نے متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور ایل او سی پر تقریباً ایک دہائی سے جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔گذشتہ سال جو نواز شریف جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے نیویارک گئے تھے تو اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان ایل او سی پر کشیدگی تھی اور دو طرفہ فائرنگ کے واقعات جاری تھے۔ نیویارک میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی تھی جس میں ایل او سی پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو مدعو کیا تھا اور دہلی میں دونوں رہنماو ¿ں کے مابین ملاقات میں تعلقات کی بہتری پر اتفاق کیا گیا تھا۔ا ±نھوں نے کہا کہ ’اسٹیٹس کو‘ (جوں کے توں حالات) کا انداز روا رکھنا مسائل کے حل میں معاون نہیں ہوسکتا۔ماضی میں عالمی ادارے کی منظور کردہ قرار دادوں کا ذکر کرتے ہوئے، ا ±نھوں نے کہا کہ: ’کشمیری عوام اقوام متحدہ کی طرف سے چھ عشرے قبل استصوابِ رائے کے بارے میں کیے جانے والے وعدے کی تکمیل کے اب تک منتظر ہے۔بقول ا ±ن کے، عالمی ادارے کی یہ ذمہ دری ہے کہ کشمیر کا ’بنیادی مسئلہ‘ حل کرے۔ ا ±ن کا کہنا تھا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے تیار ہے، اور یہ کہ تنازعات کے پ ±رامن حل میں پاکستان عالمی ادارے کا ساتھ دے گا۔ ’پاکستان دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اور دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے سلسلے میں پ ±ر عزم ہے۔اس وقت شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور ا ±ن کے ٹھکانوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی جاری ہے، جس کی پوری پاکستانی قوم تائید کرتی ہے۔تاہم، پاک افغان سرحدی علاقے پر ہونے والی تشدد کی کارروائیوں کے سلسلے میں، ا ±ن کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ’مثبت عملی اقدام کرنا ہوں گے۔ا ±نھوں نے داخلی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لاکھوں افراد کا ذکر کیا جن کی امداد کے لیے قابل قدر کوششیں کی جانی چاہئیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کا حامی ہے، جب کہ وہ کونسل میں مستقل نشستوں کو بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔افغانستان کے بارے میں، ا ±ن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حریف بننے کے بجائے، افغانستان کو اسٹریٹجک تعاون کا مرکز بننا چاہیئے۔ شراکت اقتدار کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں دونوں رہنما اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ مضبوط ہو کر ابھریں گے، اور افغان عوام کے حالات بہتر ہوں گے، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی توقع ہے۔ بقول ا ±ن کے، دونوں ممالک کے مفادات یکساں ہیں۔غزہ کے معاملے پر، ا ±نھوں نے ’فلسطینیوں کے قتل عام‘ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور ’کثیر انسانی جانوں‘ کے ضائع ہونے پر تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا۔نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ غزہ کا ’بلاکیڈ‘ ختم کیا جائے اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ساتھ ہی، ا ±نھوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قراردادوں کے تحت، فلسطین کا مستقل و دیرپاحل تلاش کرے۔شام اور عراق میں تشدد پر مبنی انتہا پسندی کے نیٹ ورک اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے، ا ±نھوں نے کہا کہ اس کے باعث ہزاروں بے گناہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ا ±نھوں نے دہشت گردی کے انسداد کی کوششوں کو مو ¿ثر طور پر مکمل کرنے پر زور دیا۔ا ±نھوں نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے عزم کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔نواز شریف نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں دنیا کی معیشتیں تباہ ہورہی ہیں۔ اس سلسلے، ا ±نھوں نے کہا کہ پاکستان میں حال ہی میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔جوہری ہتھیاروں پر مو ¿ثر نظرداری کے بارے میں، ا ±ن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری پاکستان کے ’سخت ضابطوں اور اعلیٰ معیار کی معترف ہے۔نواز شریف نے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ملک میں تعلیم، صحت اور زیریں ڈھانچے کی سہولیات بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدام کر رہی ہے۔ا ±نھوں نے عالمی ادارے کی طرف سے غربت کے خاتمے اور صحت عامہ کے فروغ سے سلسلے میں معاونت فراہم کرنے کی کوششں کو سراہا۔جبکہ اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے امن کار مشنز کے حوالے سے ’اہم اور قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں منعقدہ امن کارروائیوں کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، ا ±نھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز میں ’جانیں نچھاور کرنے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔یہ اجلاس عالمی ادارے کی طرف سے دنیا بھر میں جاری امن مشنز کو ’مربوط بنانے‘ کے لیے منعقد کیا گیا ، جس کی صدارت امریکی نائب صدر، جو بائیڈن نے کی۔نواز شریف نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی کئی ممالک میں امن کار دستے بھیجتا رہا ہے، جن کی کارکردگی کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔بقول ا ±ن کے،’اِس قائدانہ کردار پر ماضی میں پاکستان کو بے حد سراہا جاتا رہا ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ خطے میں، پاکستان دیگر ممالک کو فوجی امن کار مشن کے حوالے سے تریبت دینے کی خصوصی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس سلسلے میں، اقوام متحدہ کو تربیت دینے اور مزید دستے روانہ کرنے کی پیش کش کی۔نواز شریف نے کہا کہ سنہ 1960 سے پاکستان نے عالمی ادارے کے امن کار مشنز میں شرکت شروع کی، اور اب تک 150000فوجی اور پولیس اہل کار دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات کر چکا ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ اب تک پاکستان کے 140 فوجی اقوام متحدہ کے امن کار مشنز میں جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کی اپیل پر پاکستان نے وسطی افریقہ میں امن مشن روانہ کیا ہے؛ اور یہ کہ اِس وقت، پاکستان کے 117 اہل کار تعینات ہیں۔تربیت کی پیش کش کے سلسلے میں، ا ±ن کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت جاری ہے؛ جب کہ، ضرورت اس بات کی ہے کہ آپسی رابطے کو فروغ دیا جائے۔نواز شریف نے زور دے کر کہا کہ ’کشیدگی کی وجوہات ختم کرکے دستوں کا کام آسان بنایا جائے‘۔ا ±نھوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے منشور کے تحت کردار جاری رکھا جائے گا۔جبکہ ایک روز قبل وزیر اعظم نواز شریف نے ناروے کی وزیر اعظم، مز اِرنا سولبرگ سے ملاقات کی، جِس دوران دونوں ملکوں کے مابین تعاون کی موجودہ سطح کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔دونوں رہنماو ¿ں نے باہمی مراسم بڑھانے کا فیصلہ کیا، جس میں خصوصی طور پر، توانائی کا شعبہ شامل ہے۔دونوں سربراہانِ حکومت نے علاقائی صورتِ حال پر بھی بات چیت کی، جس میں افغانستان کے حالیہ معاملات خصوصی طور پر پیشِ نظر رہے۔یہ ملاقات، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی سے باہر ہوئی، وزیر اعظم نواز شریف نے ناروے کی اپنی ہم منصب کو ا ±ن اقدامات سے آگاہ کیا، جو ا ±ن کی حکومت پاکستان کو لاحق توانائی کی کمی کے مسئلے کے حل کے لیے کر رہی ہے۔ا ±نھوں نے بتایا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے توانائی کے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ناورے کی وزیر اعظم نے، اِس سلسلے میں، حکومتِ پاکستان کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا، جن کا مقصد توانائی کے متبادل ذرائع کو استعمال میں لانا ہے، اور اس میدان میں پاکستان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔وزیر اعظم نواز شریف نے بتایا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار ہیں، اور یہ کہ ناروے کے اداروں کی طرف سے ملک میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جائے گا، خصوصی طور پر، توانائی اور زیریں ڈھانچے کی ترقی کے شعبہ جات میں۔ناروے کی وزیر اعظم نے پاکستانی نژاد افراد کی طرف سے ناروے کی ترقی میں ادا کیے جانے والے کردار کی تعریف کی۔ملاقات میں، وزیر اعظم کے خصوصی مشیر طارق فاطمی؛ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب ایمبسیڈر مسعود خان بھی موجود تھے۔اسی روزنیپال کے وزیر اعظم، سشیل کورائلہ نے نیو یارک میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی، جس دوران باہمی مفاد کے امور زیر غور آئے۔ ا ±نھوں نے علاقائی صورت حال پر بھی بات چیت کی۔ملاقات کے دوران دونوں سربراہان حکومت نے تجارت اور معاشی میدان میں تعاون کے امکانات کو فروغ دینے میں انتہائی دلچسپی کا اظہار کیا، جس میں کاروبار کو وسعت دینے کا معاملہ بھی شامل ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کو چاہیئے کہ وہ تعاون سے متعلق جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے، بامقصد تعاون کو مزید فروغ دینے کی کوشش کریں۔وزیر اعظم کے خصوصی مشیر طارق فاطمی، امور خارجہ کے سکریٹری اعزاز احمد چودھری، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان، امریکہ میں پاکستانی سفیرجلیل عباس جیلانی، اور وزیر اعظم دفتر کے ایڈیشنل سکریٹری فواد حسن فواد بھی ملاقات کے دوران موجود تھے۔جبکہ پاکستان اور ہندوستان کے حکام کے درمیان دو اہم ملاقاتیں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہوئیں، لیکن اس دوران جن معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا، ان میں باہمی تعلقات پر توجہ مرکوز نہیں تھی۔ہندوستانی وزیر برائے خاجہ امور ششما سوراج اور پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے سارک اور دولتِ مشترکہ کے وزرائے خارجہ کے اجلاسوں کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ ملاقاتیں کیں، جن سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ دونوں تجربہ کار سیاستدان ان مواقعوں کو دونوں ملکوں کے دوران کشیدگی کم کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ان کی یہ ملاقات طے شدہ تھی، اور دولتِ مشترکہ کے اجلاس پر ان کی مختصر بات چیت بھی ہوئی تھی، لیکن باضابطہ مذاکرات منعقد نہیں ہوئے۔تاہم سفارتی مبصرین نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے موقع پر اس کو ایک معمولی اشارے کے طور پر دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ”یہ درست سمت میں ایک قدم تھا۔واضح رہے کہ سارک اور دولتِ مشترکہ کے ممالک کے وزرائے خارجہ ہر سال اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک متفقہ ایجنڈے پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔اس سال کے ایجنڈے میں دولتِ مشترکہ کی اصلاحات، 2015ءکے بعد کے ترقیاتی اہداف اور جنوبی ایشیا میں تعاون کو بہتر بنانا جیسے معاملات شامل تھے۔ششما سوراج اور سرتاج عزیز کی توجہ اپنی تقاریر میں اسی ایجنڈے پر ہی مرکوز رہی اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مختصر ملاقات کی لیکن صرف رسمی تہنیت کا تبادلہ کیا۔ ان دونوں وزراءکے درمیان ایک علیحدہ ملاقات کے بارے میں قیاس آرائیوں کو اس وقت فروغ ملا جب اقوامِ متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مندوب اشوک مکھرجی نے بتایا کہ ان میں سے کسی ایک موقع پر دونوں وزراءایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرسکتے ہیں۔ان دونوں وزراءکی ایک ملاقات کے امکان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اشوک مکھرجی نے کہا کہ”سارک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا شیڈول طے ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ہماری خارجہ امور کی وزیر اس اجلاس میں سرتاج عزیز سے ملاقات کریں گی۔اشوک مکھرجی نے کہا کہ ان دونوں رہنماو ¿ں کی ملاقات کے لیے دوسرا موقع دولتِ مشترکہ کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوگا۔انہوں نے کہا ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی دولتِ مشترکہ کے رکن ہیں۔ لہٰذا اس اجلاس میں دونوں وزراءکی ملاقات ہوجائے گی۔یاد رہے کہ ششما سوراج کی سرتاج عزیز کے ساتھ پچھلی ملاقات 12 ستمبر کو شنگھائی تعاون کی تنظیم کی دوشنبے میں سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی، لیکن نیویارک کی طرح انہوں نے صرف وقفے کے دوران خیرمقدمی کلمات کا تبادلہ کیا تھا۔نئی دہلی کی جانب سے خارجہ سیکریٹریز کی سطح کے مذاکرات کو گزشتہ ماہ منسوخ کردینے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بیانات کی جنگ چھڑ گئی تھی۔ان مذاکرات کو ہندوستان نے پاکستانی سفارتکار کی انڈیا میں کشمیری رہنماو ¿ں کے ساتھ ملاقات کے بعد منسوخ کیا تھا۔ہندوستانی حکام کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی پر مذاکرات کی بحالی کا انحصار ہے۔ ہندوستانی تھنک ٹینک کے ماہرین اور حکمران جماعت بی جے پی سے نزدیک سابق سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کشمیر کا مسئلہ ا ±ٹھایا تو ہندوستان مذاکرات کی بحالی کی خواہش کا اظہار نہیں کرے گا۔انہوں نے دلیل دی کہ اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہ کرکے نواز شریف ناصرف کشیدگی کو کم کرسکتے ہیں، بلکہ شاید اقومِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نریندرا مودی کے ساتھ ایک ملاقات کے امکان میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔تاہم پاکستانیوں کی دلیل تھی کہ اگر نواز شریف ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی خودکشی ہوگی۔تاہم نواز شریف نے اپنے یجنڈے میں اولین ترجیح مسئلہ کشمیر کو رکھا اور پاکستان کے موقف سمیت کشمیری عوام
کی امنگوں کے عین مطابق اقوام عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی ذمہ داری پر زور دیا۔اے پی ایس