ایگزیکٹ سے متعلق تحقیقات۔ چودھری احسن پریمی



بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ کو بدنام کرنے کی ذمہ دار ایک غیر ملکی انٹیلی جینس ایجنسی ہے۔تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے۔تاہم نیویارک ٹائمز کا دعوی ہے کہ مذکورہ سٹوری بارے اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔جبکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر نجی کمپنی ایگزیکٹ سے متعلق تحقیقات شفاف طریقے سے کی جائیں گی اور اس بارے میں کسی بھی قسم کا دباو ¿ قبول نہیں کیا جائے گا۔گزشتہ بدھ کو پارلیمنٹ ہاو ¿س کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی چھان بین کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں اس معاملے کو کافی ہوا دی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس کے علاوہ اور کوئی خبر نہیں ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے۔ا ±نھوں نے کہا کہ اس واقعہ سے متعلق تحقیقات میں ماہر سمجھے جانے والے افسران کو شامل کیا ہے اور اس بارے میں جو بھی پیش رفت ہوگی اس سے متعلق عوام اور پارلیمنٹ کو آگاہ کیا جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ تفتیش مکمل ہونے سے پہلے کسی کو مجرم قرار دینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ادھر پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے جعلی ڈگریوں کے مبینہ سکینڈل کی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے راولپنڈی میں ایگزیکٹ کے دفتر کو سیل کر کے اور وہاں پر موجود سامان کو اپنی تحویل میں لے لیا۔سائبر کرائم کے ڈپٹی ڈائریکٹر طاہر تنویر کی سربراہی میں ایف آئی اے کے دس سے زائد افراد بدھ کو اس عمارت میں موجود سامان کی جانچ پڑتال کرتے رہے۔ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس عمارت میں ڈگریوں سے متعلق دستاویزات اور اس معاملے میں رجسٹر ہونے والے افراد کا ڈیٹا چیک کیا جا رہا ہے۔اہلکار کے مطابق منگل کو ایگزیکٹ کی عمارت پر چھاپے کے دوران قبضے میں لیے گئے کمپیوٹروں کو لیبارٹری میں بھجوا دیا گیا ہے جس کی رپورٹ ایک ہفتے میں آئے گی۔ایف آئی اے نے اس کمپنی کے مقامی ذمہ داران کو جمعرات کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ ابھی تک اس کمپنی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا جبکہ تحقیقات کے ضمن میں حراست میں لیے جانے والے 20 افراد کو گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ا ±دھر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے سائبر کرائم کا بل منظور نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ سے یہ بل منظور کر کے قانون بن گیا ہوتا تو جعلی ڈگریوں کا معاملہ پیش نہ آتا۔قائمہ کمیٹی کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر ملک کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی کہ اس سکینڈل میں ملوث ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں بیورو چیف ڈیکلن والش نے پیر کو ایگزیکٹ پر کمپنی پر الزام لگایا تھا کہ انٹرنیٹ پر امریکہ، کینیڈا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں کرنے والی جعلی ڈگریاں فروخت کر کے ایگزیکٹ لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ خبر میں کمپنی کے سابق اہلکاروں اور متاثرین سے تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز نے ایگزیکٹ کی ان مبینہ آن لائن یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرست شائع کرتے ہوئے ان کا تکنیکی تجزیہ بھی پیش کر کے ان کا ایگزیکٹ سے مبینہ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔اس خبر پر ایگزیکٹ نے کل نیویارک ٹائمز اور ڈیکلن والش کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا اور اپنی ویب سائٹ پر شائع بیان میں ان الزامات کو بے بنیاد، ہتک آمیز اور غیر معیاری قرار دیا۔پاکستان کی سافٹ ویئر کمپنی ‘ایگزیکٹ’ کے مبینہ سکینڈل نے ملک میں سیاسی اور صحافتی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ وفاقی ادارے ایف آئی اے نے راولپنڈی اور کراچی میں دوسرے روز بھی کمپنی کے خلاف تفتیش جاری رکھی۔ گزشتہ روز حراست میں لیے گئے ملازم رہا کیے گئے ہیں اور تحقیقات میں ابھی تک کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہ آنے پر مقامی میڈیا ناراض نظر آتا ہے۔سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو حکم جاری کیا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنی ایگزیکٹ کے خلاف جعلی ڈگریوں کے کاروبار کے الزامات کے بارے میں تحقیقات قانون کے مطابق کی جائیں۔ایگزیکٹ کے ملازم امداد علی کی جانب سے دائر درخواست میں ایف آئی اے پر ہراساں کرنے اور کام سے روکنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ملازمین کو صبح سے ہی کام کرنے سے روک دیا جبکہ ایگزیکٹ کے خلاف پاکستان میں کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہے۔درخواست میں عدالت سے گذارش کی گئی ہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کی بنیاد پر ایگزیکٹ اور اس کے خلاف کارروائی سے روکا جائے، اور میڈیا گروپس کو بھی تاکید کی جائے جنہوں نے ان کے خلاف مہم چلائی ہوئی دراصل وہ ان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ سے خائف ہیں جس کا نام بول ہے۔عدالت نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور وزرات نشریات کو 26 مئی کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں۔ وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کی جانب سے ایگزیکٹ کمپنی کے بارے میں تحقیقات کے حکم کے بعد ایف آئی اے نے منگل کی صبح راولپنڈی اور کراچی میں کمپنی کے دفاتر پر چھاپہ مار کر 20 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ڈیفنس میں واقعے ایگزیکٹ کے دفتر کے باہر منگل کی دوپہر سے شام تک میلے جیسا سماں رہا اور تقریبًا تمام ہی نیوز چینلز کی ڈی ایس این جیز یا کیمرہ مین اور رپورٹر وہاں موجود تھے۔ ایگزیکٹ کی جانب سے میڈیا کے لوگوں کو منرل واٹر کی بوتلیں اور چائے بھی فراہم کی گئی، جبکہ اسی گروپ کے مجوزہ چینل بول کی 6 سیٹلائٹ گاڑیوں نے سامنے کا راستہ بلاک کر دیا تھا اور سیکیورٹی سٹاف صحافیوں کو عقبی راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔جب تمام نیوز چینلز کے کیمرے ایگزیکٹ کی عمارت پر تھے تو اس وقت بول کے کیمرہ مین عمارت کی چھت اور سڑک سے صحافیوں اور کیمرہ مین کی رکارڈنگ میں مصروف نظر آئے۔امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ مبینہ طور پر جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے۔وزارتِ داخلہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق چودھری نثار علی خان نے اس معاملے پر تحقیقات کے بعد ایف آئی اے کو فوری رپورٹ پیش کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ان تحقیقات میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ نیویارک ٹائمز کی خبر میں کتنی صداقت ہے اور کیا مذکورہ کمپنی کسی ایسے غیر قانونی کام میں ملوث ہے جس سے دنیا میں پاکستان کی نیک نامی پر حرف آ سکتا ہے۔کراچی میں بھی سافٹ ویئر کمپنی کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور کارپوریٹ اور سائبر کرائم سرکل کے تین افسران کی سربراہی میں ایک ٹیم نے گزشتہ منگل کو مرکزی دفتر کا دورہ کیا۔ڈپٹی ڈائریکٹر کامران عطااللہ نے کراچی میں میڈیا سے مختصر بات چیت میں بتایا کہ تفتیش اس وقت ابتدائی مرحلے میں اس لیے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی صرف ملازمین کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے۔نیویارک ٹائمز کے پاکستان میں بیورو چیف ڈیکلن والش نے پیر کو ایگزیکٹ کے حوالے سے اخبار میں لکھا تھا جس میں کمپنی پر الزام لگایا گیا تھا کہ انٹرنیٹ پر امریکہ، کینیڈا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں فروخت کرنے والی جعلی ڈگریوں سے ایگزیکٹ مبینہ طور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ خبر میں کمنپی کے سابق اہلکاروں اور متاثرین سے تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ ایک نیا نجی چینل ’بول ٹی وی‘ بھی لانچ کرنے جا رہے ہیں۔اس کے علاوہ نیویارک ٹائمز نے ایگزیکٹ کی ان مبینہ آن لائن یونیورسٹیوں اور کالجوں کی فہرست شائع کرتے ہوئے ان کا تکنیکی تجزیہ بھی پیش کر کے ان کا ایگزیکٹ سے مبینہ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔واضح رہے کہ ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ ایک نیا نجی چینل ’بول ٹی وی‘ بھی لانچ کرنے جا رہے ہیں، جس میں ملک کے نامور صحافیوں اور اینکروں کو بھرتی کیا گیا ہے۔اس خبر پر ایگزیکٹ نے کل نیویارک ٹائمز اور ڈیکلن والش کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا اور اپنی ویب سائٹ پر شائع بیان میں ان الزامات کو بے بنیاد، ہتک آمیز اور غیر معیاری قرار دیا۔بیان کے مطابق ایگزیکٹ کے خلاف یہ مہم حریف میڈیا ادارے گذشتہ دو برسوں سے چلا رہے ہیں کیونکہ ان اداروں کے چینل بول ٹی وی کی کامیابی سے ڈرتے ہیں۔بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ خبر یک طرفہ ہے اور ایگزیکٹ شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی سب سے زیادہ روایتی اور آن لائن تعلیمی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ایگزیکٹ کی ویب سائٹ پر مزید کہا گیا ہے کہ’ایگزیکٹ کے دس کاروباری یونٹ بالکل جائز اور قانونی ہیں۔‘ اس کے علاوہ ایگزیکٹ نے بلاگ ’پاک ٹی ہاو ¿س‘ کو سوشل میڈیا پر نیو یارک ٹائمز کی اس خبر پر ردِ عمل شائع کرنے پر بھی قانونی کارروائی کا نوٹس جاری کیا ہے۔پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجلاس میں بھی اس پر بات چیت ہوئی اور سینیٹ کے سربراہ رضا ربانی نے ایوان کی کمیٹی کو اس پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے بارے میں کہا کہ ’یہ کون ہیں، کیا کرتے ہیں اور ان کے کیا ارادے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے اور قومی اسمبلی میں اس پر بات ہونی چاہیے۔شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ’وزیرِ داخلہ کو بھی اس پر ایک مفصل بیان دینا چاہیے، اگر اس بارے میں کوئی معلومات ہیں تو قوم کو بتائیں اور اگر کوئی غلط فہمی ہے تو واپس لے لیں۔اے پی ایس