کراچی کی مخدوش صورتحال پر وزیرداخلہ کا لائحہ عمل۔چودھری احسن پریمی



Associated Press Service
کراچی میں فوجی اہلکاروں کی گاڑی پر حملے کے واقعے اور اس کے بعد ہونے والے پے درپے احتیاطی و حفاظتی اعلانات نے ایک ہلچل سی مچادی ۔ اعلانات کے باعث عوام میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔واقعہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب ایک روز بعد یعنی، جمعرات 3 دسمبر کو حضرت امام حسین (علیہ السلام) کا چہلم ہے، تو دوسری طرف 5 تاریخ کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد تھا۔اس اہمیت کے پیش نظر واقعے کے فوری بعد سے دیر گئے تک کئی اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا جس سے صورتحال کی سنگینی کو گویا مزید بڑھا دیا۔ انتظامیہ نے پہلے بدھ کی رات 10بجے سے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، واقعے کے بعد، پابندی کا اطلاق منگل کی رات 10 بجے سے ہی کردیا گیا۔واقعے کے پیش نظر منگل کو ہی محکمہ داخلہ سندھ نے وفاق سے چہلم کے موقع پر تین دسمبر کو صبح 10 بجے سے رات 10 بجے تک موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل رکھنے کے لئے مراسلہ ارسال کردیا۔ اس اعلان کے سبب بھی لوگوں میں فکرمندی پائی جاتی ہے، جبکہ بیشتر کو یہ سوال پریشان کررہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کہیں ملتوی تو نہیں ہوجائیں گے۔لوگوں میں فکرمندی کا سبب وہ اعلان بھی ہے جو محکمہ تعلیم کی طرف سے اچانک ہوا۔ صوبائی محکمہ تعلیم سندھ نے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں اچانک جمعہ کی چھٹی کا اعلان کردیا،حالانکہ 3دسمبر کو چہلم اور 5 دسمبر کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پہلے ہی عام تعطیل کا اعلان کیا جاچکا تھا۔ تاہم، اب کراچی کے تمام تعلیمی ادارے جمعہ چار دسمبر سمیت مسلسل تین روز تک بند رہیں گے اور چوتھے دن اتوار ہے ۔ خیال کیا جارہا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کا اعلان حفاظتی اقدام کے طور پر کیا گیا ہے۔ اسی روزمنگل کی شام وزیر اعلی سندھ، قائم علی شاہ نے کورکمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار سے فون پر رابطہ کیا اور انہیں واقعے کی تفتیش سے متعلق اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیر اعلی سندھ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سید قائم علی شاہ نے واقعے پر اگلے روز صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا گیا۔سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ حملے کا مقصد فوج کو نشانہ بنانا تھا کیوں کہ حالیہ مہینوں میں پولیس، ٹریفک پولیس اور رینجرز پر بھی متعدد حملے ہو چکے ہیں۔ فوجی گاڑی پر حملہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ رد عمل نے بھی شہریوں کو فکر مند کردیا ۔ادھر صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کراچی سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ دونوں شخصیات نے واقعے میں ہلاک ہوجانے والے دو اہلکاروں کے اہل خانہ سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔صدر نے جاری اپنے بیان میں کہا کہ پوری قوم ملک کے لئے جان قربان کر دینے والے اہلکاروں کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ جوانوں کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، جبکہ وزیر اعظم نے واقعے پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایات جاری کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بزدلانہ حملے ہمارے جوانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، سابق صدر آصف علی زرداری اور دیگر سیاستدانوں نے بھی واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔جبکہ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر پاکستان میں بھی درج کی جائے گی۔خیال رہے کہ عمران فاروق کا قتل سنہ 2010 میں لندن میں ہوا تھا۔ اس مقدمے میں تین افراد پاکستان کے قانون نافد کرنے والیاداروں کی تحویل میں ہیں جن میں معظم علی کے علاوہ محسن علی اور خالد شمیم شامل ہیں۔وزیرِ داخلہ نے بتایا ہے کہ حقائق اور جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کی روشنی میں وزارتِ داخلہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کیس کی باقاعدہ ایف آئی آر پاکستان میں درج کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پاکستانی کاقتل تھا اور ایک بین الاقوامی کیس بن چکا تھا۔چوہدری نثار نے بتایا کہ ان کی حکومت نے اس کیس کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ہم نے برطانیہ سے مکمل انیٹیلیجنس اور دوسری معلومات شیئر کیں، ہماری سکیورٹی ایجنسیز کے کنٹرول میں جو بھی اس کے مجرم ہماری سکیورٹی ایجنسیز کے کنٹرول میں تھے ان تک رسائی دی گئی۔وزیرِ داخلہ نے مزید کہا کہ عمران فاروق قتل کیس کی تفتیشی رپورٹ مشترکہ طور پر مرتب کی گئی۔یہ صرف پاکستان کی جے آئی ٹی نہیں بلکہ آپ سمجھیں کہ اس میں سکاٹ لینڈ یارڈ اور پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز، ایف آئی اے اور پولیس اس کی جوائنٹ ٹیم نے تفیش کی اور اس کا ریکارڈ ان کے پاس بھی ہے اور ہمارے پاس بھی ہے۔وزیر داخلہ نے پاکستان میں کام کرنے والی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو رجسٹریشن کے لیے مذید ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے ۔چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ یکم جنوری سنہ2016 تک اگر کسی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم نے اپنے آپ کو پاکستانی قوانین کے مطابق رجسٹرڈ نہ کروایا تو اس تنطیم میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو ملک بدر کردیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کام کرنے والی ان بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں جو پالیسیاں بنائی گئی تھیں اس بارے میں کسی بھی ملک نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔جبکہ ایم کیو ایم کے رکن محمد انور نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے اس اعلان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایم کیو ایم کا ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات پر شروع دن سے موقف بڑا اصولی رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا شروع دن سے یہ کہنا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے اصل قاتلوں کو عدالت کٹہرے میں لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اس قتل کی تحقیقات ہونی چاہے جہاں بھی ہوں انصاف اور قانون کے تقاضوں کے تحت ہونی چاہیں اور جبر تشدد اور زور زبردستی سے کسی کو اس مقدمے میں ملوث نہ کیا جائے۔ کراچی میں بلدیاتی انتِخابات سے چند دن قبل پاکستان کے وزیر داخلہ کی طرف سے اس اعلان کی سیاسی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر اس وقت یہ اعلان کیوں کیا گیا۔انھوں کہا کہ اس سوال کا جواب چوہدری نثار علی خان ہی دے سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کراچی میں دہشت گردی کے واقعہ پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات سے حکومتی عزم میں کوئی کمزوری آئے گی اور نہ ہی دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن رکے گا بلکہ یہ آپریشن مزید تیز ہوگا۔ دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کیا جائے گا۔ ایف آئی اے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی ایف آئی آر درج کرے گی۔ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ پاکستان میں کام کرنے والی 129 آئی این جی اوز نے 30 نومبر تک رجسٹریشن کیلئے درخواست دی ہے۔ سیکورٹی کلیئرنس کے بعد ان کی درخواستوں پر فیصلہ کیا جائے گا۔ مزید آئی این جی اوز کی رجسٹریشن کیلئے مہلت میں یکم جنوری تک توسیع کر دی گئی ہے۔ رجسٹریشن کیلئے درخواست نہ دینے والوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ پاکستانیوں کی ملک بدری کے حوالے سے آئندہ ماہ یورپی یونین سے مذاکرات ہوں گے، غیر قانونی طور پر شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 13 دن میں 234 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گزشتہ منگل کو پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کراچی کے واقعہ پر حکومت اور اپنی طرف سے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے ہمارے عزم میں کوئی کمزوری نہیں آئے گی اور نہ ہی جاری آپریشن رکے گا بلکہ یہ آپریشن مزید تیز ہوگا اور ہمارا عزم بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ دہشت گردوں کے ہر قدم ہر وار اور ہر اسٹریٹجی کا مقابلہ کریں گے اور انہیں شکست دیں گے۔ دہشت گرد خواہ کراچی میں ہوں، پنجاب یا فاٹا میں یا ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں، ان کا پیچھا کیا جائے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار انٹرنیشنل این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کے سلسلے میں بہت کامیابی ملی ہے۔ پاکستان میں سالہا سال سے سینکڑوں آئی این جی اوز کام کر رہی ہیں لیکن قانون کے مطابق اجازت لے کر صرف 19 کام کر رہی تھیں جبکہ 100 سے زائد قانونی تقاضے پورے کئے بغیرکام کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی این جی اوز کے رجسٹریشن کے نظام پر مختلف ممالک اور اداروں کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا اور اس عمل کی مخالفت بھی کی گئی لیکن 30 نومبر کو مہلت ختم ہونے تک 129 آئی این جی اوز نے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں دے دیں جن پر سیکورٹی کلیئرنس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے طریقہ کار پر کوئی اعترض سامنے نہیں آیا اور شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ ہماری پالیسی درست تھی۔ وزیر داخلہ نے رجسٹریشن کے لئے درخواست دینے کی مہلت میں ایک ماہ کی توسیع کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئی این جی اوز کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اس لئے جن آئی این جی اوز نے اب تک رجسٹریشن کے لئے درخواست نہیں دی، انہیں یکم جنوری 2016ء تک کی مہلت دیتے ہیں۔ اس تاریخ تک رجسٹریشن کے لئے درخواست نہ دینے والوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ وزارت داخلہ نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تفتیشی رپورٹ کی روشنی میں اس قتل کی باقاعدہ ایف آئی آر پاکستان میں درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایک پاکستانی کا قتل تھا اور یہ ایک بین الاقوامی کیس بن چکا تھا۔ سابقہ حکومتوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔ ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ اس ہائی پروفائل قتل کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اس قتل کی تحقیقات کیلئے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ملزمان تک رسائی فراہم کی گئی اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کی تفتیش کے نتیجے میں رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ پاکستانیوں کو ان کے کاغذات کی تصدیق کے بغیر جہازوں میں بھر بھر کر ڈی پورٹ کیا جا رہا تھا۔ اس حوالے سے یورپی یونین سے بھی بات چیت کی گئی اور انہوں نے ہمارے تحفظات کو مدنظر رکھا جس پر ان کے ممنون ہیں۔ جو بھی پاکستانی ڈی پورٹ ہو کر آئیں گے ان کے کاغذات کی تصدیق ہوگی۔ کسی پاکستانی کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جائے گا لیکن کسی کو پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور بنیادی حقوق کا سبق صرف ہمارے لئے نہیں ہونا چاہئے بلکہ پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے۔ جنوری میں یورپی یونین اور پاکستانیوں کی جبری بے دخلی کے حوالے سے معاہدے پر مذاکرات کریں گے۔ کئی پاکستانیوں کو دہشت گرد قرار دے کر واپس بھیجا جا رہا تھا جس پر ہم نے کہا کہ جس پر دہشت گردی کا الزام ہے اس پر مقدمہ متعلقہ ملک میں ہی چلنا چاہئے کیونکہ شواہد انہی کے پاس ہیں اور اگر وہ کارروائی پاکستان میں چاہتے ہیں تو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی فراہم کرنا ہوں گے ہمارے اس موقف کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی، اگرچہ یہ معاہدے کا حصہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ بات کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہ ہمارے موقف کو سمجھ رہے ہیں۔ یورپی یونین کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بھی بڑی تعداد میں پاکستانی دربدر ہو کر واپس آتے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد میں سعودی عرب سے پاکستانی بے دخل ہو کر آتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے ہوتے ہیں جو حج اور عمرہ پر جاتے ہیں لیکن زائد قیام کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں۔ تصدیق کے بعد انہیں واپس لیا جائے گا۔ ایران کے حوالے سے ہمارے کچھ خدشات ہیں، ایرانی سفیر نے گزشتہ دنوں مجھ سے ملاقات میں ایران کے دورہ کی دعوت بھی دی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی پاکستانی کو ڈی پورٹ کرنے سے پہلے ہم سے اس کی تصدیق کی جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو بیرون ملک بھجوانے والوں کے خلاف گزشتہ 13 روز کی کارروائی کے دوران 234 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں 48 اشتہاری ملزم، انٹرپول کو انتہائی مطلوب 4 ملزمان اور 17 مفرور شامل ہیں۔ ایسے عناصر کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی قوم کی بدنامی ہو رہی تھی اور لوگ بھی خوار اور دربدر ہو رہے تھے۔ اس کارروائی کو مزید تیز کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے اسلحہ لائسنسوں کی تصدیق کے حوالے سے آگاہ کیا کہ 2013ء تک صرف 2600 اسلحہ لائسنسوں کی تصدیق کا عمل مکمل کیا گیا تھا حالانکہ 2011ء میں یہ عمل شروع ہو چکا تھا۔ ہم نے حکومت سنبھالی تو نئے اسلحہ لائسنسوں کے اجراء پر مکمل پابندی لگائی اور پرانے لائسنسوں کی تصدیق کے عمل کو تیز کیا۔ اس دوران 7 ہزار سے زائد جعلی اسلحہ لائسنس پکڑے گئے۔ ایک لاکھ سے زائد کی تصدیق مکمل کرلی گئی ہے جبکہ ایک لاکھ کی مزید تصدیق ابھی باقی ہے۔ 31 دسمبر 2015ء تک لائسنس کی تجدید کے لئے نادرا سے رجوع نہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرتے ہوئے ان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسلحہ ضبط، لائسنس منسوخ اور آئندہ لائسنس کے اجراء کے لئے بلیک لسٹ کیا جائے گا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوئی ہے اور ہماری پاکستان کو پرامن بنانے کی جدوجہد فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ بہت سے مراحل ہم نے افواج پاکستان، عوام، سول آرمڈ فورسز اور میڈیا کے تعاون اور قربانیوں کی بدولت کامیابی سے طے کئے ہیں۔ دہشت گرد اب جہاں چاہیں، حملہ نہیں کر سکتے، ان کا کام اب آسان نہیں رہا۔ ہم اپنے عزم کو مضبوط بنا کر بدامنی پھیلانے والوں کو شکست دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی ایف آئی آر تین زیر حراست ملزموں کے خلاف درج ہوگی، یہ ایف آئی آر اسلام آباد میں ایف آئی اے درج کرے گا۔ کراچی میں دہشت گردی کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ اس حملے میں استعمال ہونے والی گولیوں کے خول اور بائیو میٹرک معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ دنوں رینجرز کو نشانہ بنانے والے واقعہ کے ساتھ اس واقعہ کی مطابقت ہے۔ چند ماہ پہلے رینجرز نے ایک گروپ پکڑا تھا جو ایک بڑے گروپ کا حصہ تھا۔ دہشت گردوں سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ پولیس، رینجرز اور فورسز کو ٹارگٹ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمیں دہشت گردوں سے تفتیش اور پراسیکیوشن کے بارے میں از سر نو جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ایسے شواہد ہیں کہ کئی دہشت گرد کمزور تفتیش یا پراسیکیوشن کی وجہ سے رہا ہوئے ہیں، ہمیں مل بیٹھ کر اس پر ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے۔ وقت آ گیا ہے کہ ان لوگوں کی بھی نشاندہی کی جائے جنہوں نے غیر ارادی یا ارادی طور پر کمزور انوسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کی اور جنہوں نے ارادی طور پر ایسا کیا ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات کے پرامن انعقاد پر انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں مبارکباد کی مستحق ہیں جہاں انتظامیہ نے سیکورٹی کے لئے بہترین انتظامات کئے وہاں سیاسی جماعتوں نے بھی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا۔ انتظامیہ کو میں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کو نہ دیکھیں اور الیکشن کے موقع پر اچھی روایات قائم ہونی چاہئیں۔ انتظامیہ نے میری ہدایات پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فول پروف سیکورٹی انتظامات کئے۔ اس سلسلے میں رینجرز اور افواج پاکستان کا بھی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم سے تفتیش رینجرز نے قانون کے مطابق کی ہے کیونکہ دہشت گردی کے معاملات میں انہیں اختیارات حاصل ہیں۔ مجرم کوئی بھی ہو اسے قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع مل رہا ہے۔اے پی ایس