ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم: چودھری احسن پریمی



سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے سنائے گئے پاناما لیکس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ 5 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلے میں ججز کی رائے 2:3 میں تقسیم رہی۔جسٹس کھوسہ نے دی گاڈ فادر کے قول سے آغاز کیا۔پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے ماریو پوزو کے مشہور ناول دی گاڈ فادر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ ایک طنز اور سرار اتفاق ہے کہ موجودہ کیس بھی بالزاک کی اسی بات کے گرد گھومتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ان درخواستوں کو عدالت نے اس لیے سننے کا فیصلہ کیا کیونکہ ملک کے دیگر متعلقہ اداروں، جیسا نے قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈر بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بدقسمتی سے یا تو معاملے کی تحقیقات میں ناکام رہے یا انہوں نے اس سے انکار کیا، جبکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نہیں بھیجا۔
 عدالت عظمی نے معاملہ اس لیے اٹھایا،تاکہ وزیر اعظم کو کھلی چھٹی نہ ملے۔بینچ کے سربراہ نے کہا کہ اگر عدالت میں صرف اس لیے معاملے میں دلچسپی نہ لے کیونکہ اس میں حقائق جاننے کے لیے چند متنازع اور پیچیدہ سوالات شامل ہیں، تو یہ پیغام جائے گا کہ اگر ملک کا طاقتور اور تجربہ کار وزیر اعظم اپنے وفاداروں کو تمام متعلقہ اداروں کا سربراہ نامزد کرتا ہے، جو کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے ذمہ دار ہیں تو ایسی تحقیقات یا انکوائری میں وفادار وزیر اعظم کو احتساب سے مستثنی کردیں گے۔یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کتنے بھی بڑے آدمی بن جائیں قانون آپ سے بڑا ہی رہتا ہے، جمہوری، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی اسی روح کے مطابق ہی یہ عدالت وفاق کے وزیر اعظم یا چیف ایگزیکٹو کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے یا کرپشن کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی جاسکتیں جو نواز شریف کے خلاف لگائے گئے ہیں۔جبکہ پاناما مقدمے میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے عدالت عظمی کے دو جج صاحبان نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو بد دیانتی اور خیانت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں وزارت عظمی کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے مالی معاملات اور لندن کی جائیداد کے بارے میں اس عدالت کے سامنے غلط بیانی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔دونوں جج صاحبان نے الگ الگ فیصلوں میں اسی بنا پر نواز شریف کو وزیراعظم کی حیثیت سے کام کرنے سے روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے نواز شریف اپنی ملکیتوں اور لندن کی جائیدادوں کی وضاحت کرتے ہوئے اس قوم، پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے دیانت دار نہیں رہے۔اس بد دیانتی کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف آئین کی شق 62 اور عوامی نمائندگان کے قانون 1976 کے تحت مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے رکن رہنے کے اہل نہیں رہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ میاں نواز شریف کو رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے نااہل قرار دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کرے جس کے نتیجے میں وہ وزارت عظمی کے لیے نااہل قرار پائیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صدر پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
جسٹس کھوسہ نے انسداد بدعنوانی کے ادارے نیب کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے خلاف بدعنوانی میں ملوث ہونے کے قوانین کے تحت کارروائی کرے۔
اس کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ نواز شریف کے خلاف اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل رحمن ملک (جو اب پیپلز پارٹی کے سینٹیر ہیں) کی جانب سے 1994 میں درج کیے گئے مقدمات کی تفتیش، شواہد اور تفصیل بھی ضرورت پڑنے پر نیب کو فراہم کرے۔جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں نیب کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ میاں نواز شریف کے بچوں کے نام پر قائم کردہ تمام جائیدادوں اور کاروبار کا بھی جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ بچے اپنے والد کے لیے یہ جائیدادیں اور کاربار تو نہیں چلا رہے؟
جسٹس گلزار نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں عدالت عظمی محض تماشائی کا کردار ادار نہیں کر سکتی۔جسٹس کھوسہ نے نیب کے سربراہ کے بارے میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے معاملہ میں قمر زمان چوہدری کا کردار مشکوک ہے اس لیے وہ ان فریقین کے سلسلے میں ہونے والی کسی تفتیش میں کسی قسم کا اختیار استعمال نہیں کر سکتے۔جسٹس کھوسہ نے نیب کو وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کی بریت کے فیصلے کو ختم کرتے ہوئے منی لانڈرنگ معاملے میں کارروائی کا حکم دیا ہے۔پاناما مقدمے میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دوسرے جج جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے۔ لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔جسٹس گلزار نے کہا ہے کہ اس صورتحال میں عدالت عظمی محض تماشائی کا کردار ادار نہیں کر سکتی بلکہ اسے تکنیکی نکتوں سے بالاتر ہو کر انصاف کی فراہمی کے لیے ایک مثبت فیصلہ دینا ہو گا۔اس لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں اور اسی بنا پر وہ رکن قومی اسمبلی عوامی عہدے کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت سے کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ عدالتِ عظمی نے پاناما لیکس کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کے روز یہ فیصلہ عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ ان درخواستوں پر دیا جن میں وزیراعظم سمیت چھ افراد کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بینچ کا 547 صفحات پر مشتمل فیصلہ ایک اکثریتی فیصلہ تھا اور بینچ کے سربراہ سمیت دو ججوں نے اس میں اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
 فیصلے میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم کے خاندان کی لندن میں جائیداد، دبئی میں گلف سٹیل مل اور سعودی عرب اور قطر بھیجے گئے سرمائے سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ جسٹس آصف سعید اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کی طرف سے اس ضمن میں پیش کئے گئے ثبوت اور بیانات کو یکسر مسترد کر دیا۔
ان دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں قوم سے جھوٹ بولا اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اسی اختلافی نوٹ میں الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کو فوری طور پر نااہل قرار دے کر ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو ڈی نوٹیفائی کرنے کو کہا گیا ہے۔
ججوں کی اکثریت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر رینک کا افسر کرے جبکہ اس ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے دو تجربہ کار افسران شامل ہوں گے۔ عدالت نے متعلقہ اداروں کے سربراہان ایک ہفتے کے اندر اندر ٹیم کے لیے اپنے نمائندوں کے نام دینے کا حکم دیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دو ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی اور اس عرصے میں ہر دو ہفتوں کے بعد پیش رفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں
 پیش کرے گی ۔عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بنیں اور جب ضرورت پڑے تو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔
عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ ٹیم اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی جس کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس اس رپورٹ کی روشنی میں الگ بینچ تشکیل دیں گے جو وزیر اعظم کے خلاف شواہد ہونے کی صورت میں ان کی نااہلی کے معاملے کا بھی جائزہ لے سکے گا۔
 سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما دستاویزات کے معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے حکم کے بعد تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہرایا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ایسی ٹیم کی تشکیل نواز شریف کو راہِ فرار دینے کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں ایک ہفتے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے جو دو ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی۔پانچ رکنی بینچ میں سے تین ججوں نے 540 صفحات کے فیصلے میں تحقیقات کا حکم دیا جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ سمیت دو ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کو کہا۔اس فیصلے کے بعد دونوں فریقین کے سیاسی رہنماں کی جانب سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تحقیقات کی تکمیل تک نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخ بنی ہے اور ایسا فیصلہ کسی وزیراعظم کے خلاف نہیں آیا جب کہ دو ججوں نے کہا ہے کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پاس وزارتِ عظمی پر فائز رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات مکمل ہونے تک نواز شریف اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور اگر وہ 60 دن بعد بری ہو جاتے ہیں تو دوبارہ اپنے عہدے پر آ جائیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ خود نواز شریف نے بھی یوسف رضا گیلانی کو ایسا ہی مشورہ دیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی کی تحقیقات ایسے ہی ہیں جیسے عزیر بلوچ سے تفتیش کی گئی تھی۔عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مٹھائیاں کس چیز کی بانٹیں جا رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے انھیں نااہل قرار دیا ہے اور تین ججوں نے ان کے خلاف تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اعتزاز احسن نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ججوں کا فیصلہ تین ججوں سے زیادہ اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دو ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے جبکہ باقی تین ججوں نے اس رائے کی تردید نہیں کی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ دو ججز کی رائے سپریم کورٹ کی رائے سمجھی جا سکتی ہے جبکہ تین ججوں نے مایوس کیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا جے آئی ٹی بنانا نواز شریف کو راہِ فرار دینے کے مترادف ہے اور فیصلے سے نظریہ ضرورت کی بو آتی ہے۔ادھر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے سیکریٹری اطلاعات مولابخش چانڈیو نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا حکم ان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔انھوں نے کہا کہ 'پگڑی گر گئی پر عزت بچ گئی والی بات ہوئی ہے اور اب ملک کے وزیر اعظم اب ماتحت اداروں کے نمائندوں کے سامنے پیش ہوں گے۔جبکہ وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلم لیگ نواز ایک بار پھر سرخرو ہوئی اور جھوٹے الزامات لگانے والی پارٹی عدالت سے شرمندہ ہو کر نکلی۔'مریم اورنگ زیب کے مطابق 'ہمارے مخالفین نے جھوٹے الزامات کا سہارا لیا جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔'پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے کہا کہ آج سپریم کورٹ نے سازش کو ناکام بنا دیا اور جو لوگ شب خون مارنا چاہتے تھے انھیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ 'عمران خان کے دعوے کہ ان کے پاس نواز شریف کے خلاف ثبوت ہیں انھیں عدالت نے تسلیم نہیں کیا۔ آج پاکستان کے عوام کی فتح ہوئی ہے۔ آج آئین اور قانون کی جیت ہوئی ہے۔'پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہ عدالتِ عظمی نے اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے جو نواز شریف نے چھ ماہ قبل کہا تھا کہ پاناما پر کمیشن بنے، تحقیقات ہوں کیونکہ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔'ہمارے مخالفین نے جو شہادیں عدالت میں پیش کیں وہ نا کافی تھیں۔'احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم سرخرو ہوئے ہیں۔ جو لوگ یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے ہٹانے چاہتے تھے تو میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ وزیرِ اعظم سنہ 2018 تک وزیرِ اعظم رہیں گے۔اے پی ایس