فاٹا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ۔چودھری احسن پریمی


خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم کرنے کے مسئلے پر غور کرنے سے پہلے فاٹا کے اصلاحاتی پیکیج علاقے کے نام نہاد مرکزی دھارے کو فروغ دینے کے فیصلے سے پہلے ہی کچھ کم ہو گئی ہے۔تنگ سیاسی مفادات اور ناراض گروپوں کوفاٹا اصلاحات کو ناکام کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے.وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور ان علاقوں میں اصلاحات پر جلد عمل درآمد میں تاخیر کے خلاف جماعتِ اسلامی کا پشاور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ گزشتہ دنوں اسلام آباد پہنچا ۔ریلی میں شریک افراد نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد پارلیمنٹ ہاوس سے کچھ فاصلے پر پڑاو ڈالا جہاں ان سے جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بھی خطاب کیا۔اپنے خطاب میں جماعت اسلامی کے امیر نے متنبہ کیا کہ اگر فاٹا میں اصلاحات کے لیے جلد جلد قانون سازی نہ کی گئی تو ان کی جماعت 31 دسمبر کو اسلام آباد کی جانب ایک اور مارچ کر سکتی ہے۔ادھر قومی اسمبلی میں بھی فاٹا اصلاحات کا بل پیش نہیں کیا گیا جس پر حزبِ مخالف کی جماعتوں نے ایوان سے واک آوٹ کیا۔حزب مخالف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ جب تک قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا بِل قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاتا ان کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ایوان میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس اہم معاملے پر غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ایوان میں حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے سے فاٹا اصلاحات کا بِل ایوان میں پیش کیا جائے۔شیخ آفتاب احمد کا کہنا تھا کہ بِل پر اتفاقِ رائے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔سرتاج عزیز کی قیادت میں وفاقی حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی نے قبائلی نمائندوں کی مشاورت کے بعد فاٹا میں اصلاحات سے متعلق ایک رپورٹ تیار کی تھی جس کی سفارشات کی منظوری وفاقی کابینہ پہلے ہی دے چکی ہے۔لیکن حکومت کی دو حلیف جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف)اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اس انضام کی مخالفت کرتی آ رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ محض کمیٹی کی سفارش پر ایسا کرنا درست نہیں۔ دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق پہلے ریفرنڈم کرایا جائے۔جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ فوج وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے فاٹا کو قومی دھارنے میں لانے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ راولپنڈی میں قبائلی عمائدین اورنوجوانوں کے جرگے سے ملاقات کی جہاں فاٹا میں قیام امن اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔اس موقع پر جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ 'فوج قبائلی بھائیوں کی توقعات کے مطابق فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے عمل کو جاری رکھے گی'۔آرمی چیف نے قبائلی عمائدین اور نوجوانوں کو خطے میں قیام امن و استحکام اور فاٹا میں معاشی بہتری کے لیے تعاون کو سراہا۔انھوں نے قبائلی نوجوانوں کو مستقبل کے رہنما قرار دیتے ہوئے فاٹا اور پاکستان میں امن اور ترقی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے ساتھ اپنے عزم اور تعاون جاری رکھنے پر زور دیا۔اس موقع پر قبائلی عمائدین اورنوجوانوں نے قیام امن کے لیے پاک فوج کی قربانیوں کوسراہا۔یاد رہے کہ وزیرسیفران عبدالقادر بلوچ نے رواں سال کے آغاز میں کہا تھا کہ فوج فاٹا کو خیبر پختونخوا کے پی میں ضم کرنے کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتی بلکہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے۔جس کے جواب میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے پر وزیر سیفران اور آئی ایس پی آر کے بیان میں تضاد ہے۔فرحت اللہ بابر نے کہا تھا کہ 'اس موقع پر تاثرات کے حوالے سے بیان کو عام نہیں کرنا چاہیے'۔دوسری جانب حکومتی اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کے بعد اس حوالے سے قانون سازی کا عمل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکا جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر شدید دبا ڈالا جارہا ہے۔ گزشتہ سال فاٹا اصلاحات کمیٹی نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے فاٹاکو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے سیاسی، اتنظامی، عدالتی اور سیکیورٹی اصلاحات سمیت تعمیرنو اور بحالی پروگرام کی سفارشات پیش کی تھی۔مجوزہ سفارشات کے ڈرافٹ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کو 5 سال کے لیے خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئی۔ڈرافٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ فاٹا کے عوام نے گزشتہ 30 سالوں میں جنگ اور بحران کے سوا کچھ نہیں دیکھا، فاٹا کے عوام اب امن و امان، خوشحالی اور شہری حقوق کے مستحق ہیں۔وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز اس کمیٹی کے سربراہ تھے، جنھوں نے وزیراعظم نواز شریف کے برطانیہ سے واپس آنے کے بعد سفارشات پیش کیں تھی۔گزشہ سال وزیراعظم نوازشریف نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں مشیر برائے قومی سلامتی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ، وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر سیفران ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر بلوچ شامل ہیں۔کمیٹی کے اراکین نے فاٹا کا دورہ کرنے کے بعد قبائلی رہنماں سے ملاقات کی تھی جس میں قبائلی اور حکومتی نمائندوں نے مستقبل میں فاٹا میں نئی اصلاحات کو شامل کرنے کے بارے میں بات چیت کی تھی اور قومی سلامتی کے مشیر نے جنرل ہیڈکوارٹرز سے معلومات بھی فراہم کی تھیں۔ مصدقہ ذرائع نے بتایا تھاکہ مجوزہ سفارشات کا مقصد فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنا ہے اور یہ واحد کارآمد آپشن ہے۔سینئر سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فوج فاٹا کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند ہے اور اس نے ان اصلاحی سفارشات میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ کسی نے ان سفارشات کی مخالفت نہیں کی تھی، سب اس بات پر متفق ہیں کہ اب فاٹا میں ترقی و خوشحالی آنی چاہیے، سب صرف اس چیز پر غور کررہے ہیں کہ فاٹا میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے کتنا وقت متعین کرسکتے ہیں، اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا باقی تھی ۔دوسری جانب سرتاج عزیز نے کمیٹی رپورٹ کے بارے میں کچھ کہنے اور بات چیت کرنے سے انکار کردیاتھا۔ایک رپورٹ کے مطابق فاٹا کو اب تبدیلی کی ضرورت ہے، سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک دہائی سے جنگ وجدل کے بعد اب قبائلی علاقوں میں امن قائم کرنا چاہتی ہے، علاقائی سلامتی اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے شارٹ ٹرم اقدامات کرنے کے لیے سفارشات پیش نہیں کی گئی۔فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارشات پر عملدرآمد کے بارے میں بات چیت
 جاری رہی، کہ فاٹا کے منتظمین کو علیحدہ انتظامی امور چلانے کے لیے مکمل اختیارات دیئے جائیں۔ فاٹا میں ترقی و خوشحالی کے لیے ان سفارشات پر عملدرآمد ضروری ہے، کیونکہ فاٹا میں موجودہ انتظامی امور احسن طریقے سے نہیں چلائے جارہے۔کمیٹی کے سفارشات کے مطابق 2016 کے اختتام تک بے گھر افرادآئی ڈی پیزکی واپسی اور 2017 سے قبل تعمیر نو کا کام مکمل کرنا ہے، اس ٹارگٹ کو مکمل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقتصادی وسائل اور تعاون کی ضرورت ہے۔فاٹا میں غربت اور بے روز گاری کی وجہ سے ملک کا یہ خطہ سب سے زیادہ پسماندہ اور غربت کا شکار ہے، سفارشات کے مطابق 2016 کے اختتام سے قبل خیبر پختونخوا کے گورنر، ماہرین اور حکام پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو فاٹا کے لیے 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ پیش کرے گی۔10 سالہ ترقیاتی منصوبے کا مقصد فاٹا کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط، آپ پاشی، معدنی ترقی، مربوط صحت، تعلیم اور انڈسٹریل زون اور نوجوانوں کے تربیتی مراکز قائم کرنا ہے۔کمیٹی کا کہنا ہے کہ ترقیاتی منصوبے کا مقصد پاکستان کے باقی تمام شہروں کی طرح فاٹا کو بھی خوشحال بنانا ہے۔رپورٹ کے مطابق مقامی اداروں کے ذریعے ترقیاتی منصوبے پر کام کیا جائے گا، اس حوالے سے نیشنل فنانس کمیشن سے کہا جائے گا کہ وہ 10 سالہ ترقیاتی منصوبے پر کام شروع کرنے کے لیے ایک سال (17-2016) میں 2 فیصد ( تقریبا 50 ارب روپے) مختص کرے۔فاٹا میں تعمیراتی مرحلہ مکمل ہونے کے تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ حکومت اور فاٹا کے عوام کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے، فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کا مقصد خطے میں سیاسی قانونی اور آئینی اصلاحات کے ذریعے حکومتی رٹ قائم کرنا ہے۔کمیٹی کے سفارشات کے مطابق فرنٹئیر کرائم ریگولیشن کا نام تبدیلی کرکے فاٹا ریگولیشن ایکٹ، 2016 کا نام رکھا جائے جس میں جرگہ سسٹم (سول اورکرمنل مسائل) کے تمام سیشن کو ختم کردیا جائے گا، تاکہ عدالت کی جانب سے قانون کے نفاذ اور رواج کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کونسل مقرر کیے جاسکیں۔عدالت کے اختیارات کو وسیع کرنے کا مقصد آرٹیکل 247 میں ترمیم کرنا ہے تاکہ فاٹا کے عوام کو بنیادی اور شہری حقوق حاصل ہوسکیں۔کمیٹی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے افسران، پولیس کے لیے یونیفارم متعارف کرانے، 10 ہزار نوجوان بھرتی کرنے اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ سیکیورٹی کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا تھا۔کمیٹی نے فاٹا میں ترجیحی بنیادوں پر سول لا اور سرمایہ کاری کے لیے جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کی تجویز پیش کی ہے، کمیٹی نے ان اصلاحات پر نظر رکھنے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر، سلامتی کونسل کے مشیر، وزیر سیفران، وزیر قانون اور ایک پاک فوج کے نمائندے پر مشتمل اصلاحاتی کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی تاکہ کمیٹی وزیر اعظم کے ساتھ مل کر ان اصلاحات کا سہ ماہی جائزہ لے سکے۔ گزشتہ دنوںپارلیمان میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں فاٹا میں اصلاحات کے بارے میں حکومت سے مذاکرات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔اس کمیٹی میں پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے ارکان شامل ہوں گے۔ ہرجماعت سے دو ارکان لیے جائیں گے جن میں سے ایک قومی اسمبلی سے جبکہ دوسرا سینٹ سے ہوگا۔دوسری طرف حکومت نے قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعتوں کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ فاٹا اصلاحات کا بل لانے میں سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تمام جماعتوں کے پارلیمانی رہنماں کا اجلاس 15 دسمبر کو طلب کیا ہے۔پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتایا کہ انھوں نے فاٹا اصلاحات کے بل کے بارے میں وزیر اعظم سے بات کی ہے۔انھوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ترکی جارہے ہیں اس لیے وطن واپسی پر اس معاملے کو دیکھا جائے گا۔آفتاب شیخ کا کہنا تھا کہ وہ خود سینیٹ میں بھی جا کر پارلیمانی رہنماں کو مذاکرات کی دعوت دیں گے۔ انھوں نے حزب مخالف کی جماعتوں سے کہا کہ وہ چند روز انتظار کر لیں اور مزید دھرنوں میں نہ جائیں۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت فاٹا اصلاحات کے بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتوں کو لولی پاپ دیا جارہا ہے جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت سب سے پہلے اس بات کی وضاحت دے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے سے فاٹا اصلاحات کا بل کیوں نکالا گیا۔انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں دنیا کے ممالک ٹوٹ رہے ہیں لیکن پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ مختلف علاقے پاکستان کا حصہ بن رہے ہیں جن میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے بھی شامل ہیں۔قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے موجودہ حکومت ہی اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے حکومت کی طرف سے پارلیمانی رہنماں کے اجلاس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ناشتے کی میز پر ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔ادھرفاٹا اصلاحات کا بل پارلیمان میں پیش کرنے کے بارے میں حزب مخالف کی جماعت جماعت اسلامی کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا تھا اور وہ حکومت سے مطالبہ کر تی رہی کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے۔ رواں سال کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وفاقی حکومت کی طرف سے فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات پر تمام سیاسی جماعتوں سے بار بار مشاورت کے باوجود اس پر تاحال مکمل اتفاق حاصل نہیں کیا جاسکا تھا جس سے یہ معاملہ بظاہر کھٹائی میں پڑتا نظر آتارہا ہے۔قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے کی سب سے بڑی مخالف سمجھی جانے والی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کو ابتدا ہی سے اصلاحاتی کمیٹی کے بعض سفارشات پر اعتراض رہا ہے اور اس کی وہ کھل کر مخالفت بھی کرتی رہی ہے۔ تاہم یہ سلسلہ اب مخالفت سے بڑھ کر ایک باقاعدہ احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کرگیا ہے۔اس ضمن میںجمعیت علمائے اسلام ف کی طرف سے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں فاٹا اصلاحات کے خلاف ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے طلبا اور جے یو آئی کے کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔فاٹا میں جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری مفتی اعجاز شنواری کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت قبائلی علاقوں کی خیبر پختونخوا میں انضمام نہ کرنے کا واضح اعلان نہیں کرتی۔انھوں نے کہا کہ انکی جماعت فاٹا میں اصلاحات کی مخالف نہیں ہے تاہم قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے بہتر ہوگا کہ ان کو الگ صوبے کا درجہ دیا جائے۔ان کے مطابق فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے پاس یہ مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دے بلکہ ان کو صرف وہاں اصلاحات کرانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ادھر قبائلی علاقوں سے منتخب اراکینِ پارلمینٹ کا کہنا ہے کہ 'جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 'ڈبل گیم' کھیل رہے ہیں وہ ایک طرف اصلاحات مخالفت کررہے اور دوسری طرف حمایت بھی۔'انھوں نے کہا کہ جے یو آئی اس لئے فاٹا اصلاحات کی مخالفت کررہی ہے کیونکہ فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن جانے سے قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کے مینڈیٹ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ وفاقی وزیر برائے سیفران اور فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے رکن جنرل (ر) عبد القادر بلوچ نے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے ضمن میں بعض سیاسی جماعتوں کے خدشات دور کر کے اس سلسلے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرلیا گیا ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی رہنماں سے مشاورت کے بعد ان کی طرف سے فاٹا کو ِخیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا گرین سنگل دے دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں باضابط اعلان آئندہ دنوں وفاقی کابنیہ کے اجلاس میں متوقع ہے۔انھوں نے یہ بات اسلام آباد میں فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے ایک اجلاس کے اختتام پر بعض اخبار نوسیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی۔ یہ اجلاس کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں منعقد ہوا تھا جس میں صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی شرکت کی تھی۔عبد القادر بلوچ نے کہا کہ دو سیاسی جماعتوں جے یو آئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے فاٹا اصلاحات پر چند خدشات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن وہ معاملہ اب حل کر لیا گیا ہے لہذا اصلاحات
 کا بہت جلد اعلان ہوجائے گا۔تاہم دوسری طرف وفاقی وزیر کے واضح بیان کے باوجود بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے خلاف باقاعدہ احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا گیا۔یاد رہے کہ گذشتہ سال وزیر اعظم نوازشریف نے فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ وزیر خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی نے تمام قبائلی ایجنسیوں کے دورے کرکے ایک رپورٹ تیار کرلی جسے بعد میں وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔تاہم وفاقی کابینہ نے اس رپورٹ پر عمل درآمد کو موخر کردیا ہے۔ تاہم بعد میں وزیراعظم کی طرف سے اصلاحاتی کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ فاٹا کے تمام سٹیک ہولڈرز اور اصلاحات کے مخالف سیاسی جماعتیں جے یوآئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے مشاورت کر کے ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے سب متفق ہوں۔
قیامِ پاکستان سے لے کر 1980 کی دہائی کے آغاز تک ملک کے مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت چلایا گیا۔ نہ تو انتظامی اور نہ ہی ترقیاتی اعتبار سے یہ اہم خطہ کسی بھی حکومت کی ترجیح رہی۔ افغانستان میں روسی مداخلت نے اسے مزاحمتی تحریک کا مرکز بنا دیا۔یہ علاقہ افغان جنگجوں کی تربیت اور مسلح کرنے کا مقام قرار پایا اور یونس خالص کے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے مضافات میں وسیع و عریض تربیتی مراکز اس کا ثبوت ہیں۔ جو کھیل یہاں شروع کیا گیا وہی آج ریاست کا پیچھا کر رہا ہے اور پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے نے اسٹیبلشمنٹ کو احساس دلایا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو مرکزی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ حکومتی کمیٹی بنی اور وقت کی کمی کا احساس ہوتے ہوئے کم وقت میں اصلاحات کا ایک پیکج تیار کر لیا گیا۔پھر خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں ان مجوزہ اصلاحات کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔قبائلی اسے حکومت کی فاٹا میں عدم دلچسپی کے جاری پالیسی کا حصہ قرار دینے لگے۔ ان کا اصرار ہے کہ قبائلی علاقوں سے روا رکھا ہوا رویہ ماضی کے رویے سے مختلف ہے؟ تاہم بظاہر دبا میں آ کر وزیر اعظم نے اس اہم موضوع کو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم کی بااختیار لیکن مختصر کمیٹی نے عرق ریزی کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ان اصلاحات پر لگایا ۔ اس کے لیے کئی دورے کیے اور قبائلیوں سے مل کر جو رائے قائم کی ہے اور تجاویز دی ہیں اس پر قبائل کے ردعمل سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ جو ہاتھ آئے وہی غنیمت ہے سمجھتے ہوئے بے چین ہیں۔ان کی بیچینی کی اصل وجہ دہائیوں سے کسی معنی خیز تبدیلی کی ان کی تڑپ اور خواہش اور باقی پاکستان سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانا ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ اصلاحات متعارف کروانے کی وجہ کسی ایک سیاسی جماعت یا گروپ کی کوشش نہیں بلکہ پشاور سکول حملے کے بعد طے کیا گیا قومی ایکشن پلان ہے جس کا ایک اہم جزو قبائلی علاقوں کو مرکزی قومی دھارے میں لانا ہے۔ان کے مطابق قومی ایکشن پلان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات چاہتی ہے جس کی وجہ سے فاٹا کے غریب اور مظلوم لوگوں کو کم ازکم کالے قانون ایف سی آر سے نجات ضرور مل جائے گی۔پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سلسلے میں فوج کی رضامندی کا اظہار 12 فروری 2017 کو اپنے جنوبی وزیرستان دورے کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کی خواہشات کے مطابق وہ حکومت کی قبائلی علاقوں کو قومی مرکزی دھارے میں لانے کی حمایت کریں گے۔لیکن اصلاحات پر عمل درآمد سے قبل حکومت کا پلان تھا کہ گذشتہ برس دسمبر تک علاقے سے بیدخل ہوئے تمام قبائلیوں کو واپس اپنے علاقوں میں بھیج دیا جائے گا۔اس منصوبے پر سو فیصد عمل درآمد اب تک نہیں ہوسکا ہے اور اب حکومت کو امید تھی کہ یہ ہدف رواں سال اپریل تک حاصل کر لیا جائے گا۔ واپسی کے لیے 80 ارب روپے کی رقم کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن اب تک محض 30 ارب ہی جاری کیے گئے ہیں۔حکومتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایکشن پلان کے تحت فاٹا کو جنگ سے آذاد علاقہ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور یہاں قبائلی عوام سکیورٹی اور سماجی خدمات کی دستیابی کے ساتھ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے جو دیگر پاکستانیوں کو میسر ہیں۔قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان بھی فاٹا اصلاحات پر متحرک ہوئے ہیں۔ اکثر نے اصلاحات کی حمایت کی ہے اور شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں چار فروری کو ایک اخباری کانفرنس میں انھوں نے علاقے کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی حمایت بھی کر دی۔ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ ساتھ دینے والے ان اراکین کی قبائلیوں کے نزدیک رائے کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ان پر اکثر مسائل پر خاموشی اختیار کرنے اور علاقے کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن قومی اسمبلی ناصر خان کا کہنا تھا کہ بڑی رکاوٹ حکومت خود تھی جو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھی۔ پارلیمنٹیرینز اس مسئلے پر متفق تھے لیکن اس میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئی۔انھوں نے کہا فاٹا اصلاحات سے سب متفق ہیں لیکن صرف انضمام کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ صوبے کے ساتھ انضمام سے ان کی اپنی روایات متاثر ہوں گی اور علاقے میں مشکلات بڑھ جائیں گی لیکن دوسری جانب انھوں نے کہا کہ موجودہ نظام سے بھی لوگ تنگ ہیں اور یہ ایک سو سال پرانا قانون ایف سی آر اب مزید قابل برداشت نہیں رہا۔اس سلسلے میں محدود بحث قومی اسمبلی میں یا پھر میڈیا پر ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام اور محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے سرکاری موقف کے خلاف کھل کر رائے دی جس پر انھیں ان اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکانے جیسے الزامات کا سامنا رہا تاہم دونوں جماعتیں اس کی سختی سے تردید کرتی رہیں۔ان کا بھی کہنا ہے کہ وہ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کی اتنی ہی مخالف ہیں جتنا کہ کوئی اور۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کے حلیف ہونے کے باوجود ریفرینڈم کی بات کر رہے تھے لیکن اب ان کے موقف میں کچھ نرمی کے اشارے ملے ہیں۔مسلم لیگ ن کی دوسری اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی سرکاری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے علاقے کو صوبے میں ضم کرنے کی مخالفت کی۔ انھیں خدشہ ہے کہ سرکاری رپورٹ پر عمل درآمد سے قبائلی عوام تباہی سے دوچار ہوں گے۔صوبے کے موجودہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور سابق حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی دونوں قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کا مطالبہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نشستیں دی جائیں اور اس کے علاوہ صوبائی حکومت میں فاٹا کی وزارتوں کی تعداد اور قومی مالیاتی کمیشن میں اس کے حصے کا تعین بھی کر دیا جائے۔اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کو کم از کم پانچ فیصد اضافی ترقیاتی فنڈز بھی دیے جائیں تاکہ ان علاقوں کو جلد قومی دھارے میں لایا جا سکے۔قبائلی علاقوں کی ترقی اور جاری اخراجات کے لیے وفاقی حکومت سالانہ بجٹ بناتی ہے۔ رقوم سالانہ بنیادوں پر مختص کی جاتی ہیں۔قومی وسائل کی تقسیم کے فورم یعنی قومی مالیاتی کمیشن میں قبائلی علاقوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ وفاقی حکومت اپنے وسائل میں سے رقوم اس کے لیے مختص کرتی رہی ہے۔گذشتہ برس اس سلسلے میں 18 ارب روپے سے زائد کی رقم دی گئی تھی۔ اب اسے 20 ارب روپے تک لایا گیا ہے اور وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کی تعمیرِنو اور ترقی کے لیے آئندہ دس برسوں میں اسے سالانہ نو ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔ یعنی اگر یہ رقم ملتی ہے تو قبائلی علاقوں کو سالانہ 29 ارب روپے ملیں گے۔سیفران کے وفاقی سیکرٹری ارباب محمد شہزاد کا کہناتھا کہ قومی مالیاتی ادارے سے فاٹا کو تین فیصد وسائل ملیں گے۔ تاہم یاد رہے کہ صوبوں نے پانچ فیصد فنڈز دینے سے انکار کر دیا تھا۔976: جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابر رپورٹ۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے1977 کے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی تجویز پر فوجی بغاوت کے بعد عمل نہ ہوسکا۔2006: صاحبزادہ امتیاز احمد رپورٹ۔اسے فاٹا میں انتظامی اصلاحات میں پہلی جامع کوشش قرار دیا جاتا ہے لیکن آئین سے متعلق ترامیم پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔2008: جسٹس(ر) میاں محمد اجمل رپورٹ۔ برطانوی راج سے نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن میں
 ترامیم تجویز کی گئیں لیکن ایف سی آر 2011 میں سب کو شامل نہ کیا گیا۔011: صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی اور لوکل باڈیز ریگولیشن بھی تیار کیا گیا لیکن سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔2015: گورنر خیبرپختونخوا نے فاٹا ریفارمز کمیشن تشکیل دیا جس کی سفارشات پر بھی جزوی عمل درآمد ممکن ہوسکا۔قبائلی علاقوں میں باضابطہ بینکنگ کا نظام موجود نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ زرعی ترقیاتی بنک وہ واحد مالیاتی ادارہ ہے جو حکومت کے بقول قبائلی علاقوں میں زراعت کے لیے نہیں بلکہ صعنتی یونٹس کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔وفاقی وزیر برائے قبائلی علاقہ جات لیفٹینٹ جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ نے سینیٹ کو بتایا کہ فاٹا ترقیاتی اتھارٹی علاقے میں صعنتی ترقی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔مہمند قبائلی علاقے میں ماربل سٹی کا قیام آخری مراحل میں ہے جو تقریبا 300 صعنتی یونٹس کو جگہ دے سکے گا۔ یہ منصوبہ حکومت کے بقول پاکستان چین راہداری منصوبے کا بھی حصہ بنا دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ایف آر کوہاٹ اور شمالی وزیرستان میں دو صعنتی سٹیٹس بھی قائم کی جا رہی ہیں۔ ساتھ میں چھوٹے اور درمیانے سطح فاٹا انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔جب قبائلی علاقوں کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ پسماندگی کی کس سطح پر ہیں۔سنہ 2003 سے قبل جب شدت پسندی کی لہر نے اس خطے میں آگ لگائی یہ علاقہ پہلے ہی انسانی ترقی کے انڈیکس میں تمام ملک سے پیچھے تھا۔ پھر شدت پسندی نے یہاں کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی تو یہ ترقی کے میدان میں کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا گیا۔تعلیم کی بات کریں تو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہاں شرح خواندگی محض 33 فیصد ہے جو کہ قومی سطح پر یہ شرح 58 فیصد ہے۔ فاٹا میں عورتوں کی شرح خواندگی تو صرف 12 فیصد ہے۔صحت کے شعبے میں ایک لاکھ افراد میں اموات کی قومی شرح 275 ہے تو فاٹا میں یہ شرح 400 ہے۔گزشتہ مہینوں میںقبائلیوں کی اصل رائے جاننے کی واحد اکلوتی کوشش اس خطے سے متعلق واحد تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر نے گذشتہ دنوں کی۔اس سروے کے معیار اور غلطی کے امکانات اپنی جگہ لیکن اس سے بھی یہ واضح ہے کہ قبائلی تبدیلی چاہتے ہیں۔70 فیصد نے ایف سی آر سے جان چھڑانے کی حمایت کی ہے جبکہ اس سے بڑھ کر 84 فیصد نے اس خطے کے لوگوں کو حقوق انسانی دینے کی اپیل کی ہے۔54 فیصد نے علاقے کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی حمایت کی ہے جبکہ علیحدہ صوبے کے حمایت 26 فیصد نے کی ہے جو کہ انتہائی کم ہے لیکن اس کی وجہ اس آپشن کے حق میں اگر کوئی فوائد ہیں تو اس کے بارے میں مناسب آگہی کا فقدان بھی ہو سکتا ہے۔اکثر قبائلیوں کو معلوم ہے کہ ان اصلاحات سے وہاں فورا دودھ کی نہریں نہیں بہیں گی لیکن ان کے حالات میں کچھ تبدیلی آ ہی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے اپنی اصلاحاتی تجاویز سے 60 لاکھ قبائلی آبادی کو آگاہ بھی کیا ہے۔کیا انھیں مکمل تصویر دکھائی گئی ہے؟ کیا انھیں معلوم ہوچکا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے یا الگ صوبہ بننے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟۔قبائلی علاقوں کا انتظامی انحصار پہلے دن سے بندوبستی علاقوں پر ہے تو معمولات زیادہ متاثر نہیں ہوں گے۔ یہی بنیاد سرکاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں علیحدہ صوبے کی مخالفت میں بیان کی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مطلوبہ ذرائع اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔خیبر پختونخوا موجودہ علاقے کی ترقی میں مشکلات سے دوچار ہے سات دہائیوں سے پسماندہ قبائلی علاقوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔قبائلی علاقوں کے لیے ملازمتوں اور تعلیم میں خصوصی کوٹے کا خاتمہ؟ انضمام کی صورت میں فاٹا کو کیا ملے گا ابھی واضح نہیں۔مستقبل میں پسماندگی برقرار رہنے کی صورت میں پشاور سے استحصال کی شکایت کا امکان بھی ہے۔اگرچہ اب اصلاحات کمیٹی نے قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے انھیں پانچ برس میں خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش کر دی ہے تاہم علیحدہ صوبے کی حمایت اور مخالفت میں کچھ ایسے دلائل ہیش کیے گئے۔مرکزی حکومت کی مدد سے اپنے پاوں پر خود کھڑے ہونے کا امکان۔ ناقدین کے مطابق قبائلی علاقوں میں نہ تو کوئی صعنت ہے، نہ زراعت اور نہ کوئی لینڈ ریکارڈ۔ ماسوائے لینڈ ریکارڈ کے یہی مسائل کم و بیش خیبر پختونخوا کو بھی درپیش ہیں۔خیبر ایجنسی کا جمرود یا درہ آدم خیل ایسے علاقے ہیں جہاں صوبائی دارالحکومت قائم کیا جاتا ہے تو سفری اعتبار سے تقریبا پشاور جیسی ہی حیثیت ہوگی۔قبائلی علاقے کی سینٹ میں دیگر صوبوں کی طرح برابری کی بنیاد پر موجودہ آٹھ سے بڑھ کر تئیس نشستیں ہوسکتی ہیں۔ صوبہ نہ بنانے کی صورت میں کے پی کی ہی پرانی آٹھ نشستیں برقرار رہیں گی۔ اس سے قبائلیوں کی نمائندگی کی صورتحال کیا ہوگی واضح نہیں۔ذرائع اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی اب بھی خیبرپختونخوا پوری کر رہا ہے اور اپنے پاوں پر کھڑے ہونے تک مدد کرسکتا ہے۔فاٹا کو صوبے کی حثیت سے اپنا برابر حصہ ملے گا۔ فاٹا میں تمام پوسٹیں صرف میرٹ پر قبائلی نوجوان کو ملیں گی جس سے فاٹا سے بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔اکثر قبائلی اس بات پر قائل ہیں کہ حکومت اگر چاہے تو علیحدہ صوبے کے قیام کو عملی شکل دے سکتی تھی۔ وہ اس تجویز کے مخالفت میں دی گئی رائے کو نوکر شاہی کا سرخ فیتہ قرار دیتے ہیں۔تاہم صوبے کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حامیوں کی بھی کمی نہیں اور بعض قبائلی صحافی بھی اس سلسلے میں کھل کر مہم چلاتے رہے ہیں۔مبصرین کے خیال میں کوشش اس خطے کو اس غیریقینی کیفیت سے بچانے کی ہونی چاہیے اور دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا پانچ برس میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کتنا دانشمندانہ ثابت ہوتا ہے۔
حکومت نے گذشتہ برس اگست میں اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کرکے فاٹا میں اصلاحات کا چرچا شروع خود شروع کیا۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی قبائلیوں کے مستقبل کا تعین کرنے کا ایک مطالبہ تو چلا آ رہا تھا لیکن حکومت پر بظاہر کوئی غیرمعمولی عوامی یا سیاسی دبا نہیں تھا۔تو آخر خود ہی اصلاحات کے جن کو بوتل سے نکالنے کے بعد اب حکومت اسے بند کرنے میں ناکام کیوں دکھائی دے رہی ہے؟۔پاکستانی فوج کی قبائلی علاقوں میں ضرب عضب نامی فوجی کارروائی کی بظاہر کامیابی کے بعد حکومت اور فوج نے متفقہ طور پر قبائلی علاقوں میں انتظامی امور کی بہتری کو اس وقت کی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے بڑی دھوم دھام سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک سرکاری کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے کئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایک مجوزہ منصوبہ حکومت اور عوام کو پیش کیا۔مجوزہ اصلاحات میں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور صدیوں پرانے ایف سی آر قانون کی جگہ رواج نافذ کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔ رواج قانون سے متعلق ایک بل قومی اسمبلی میں پیش بھی ہوا لیکن تنقید کے بعد اسے حکومت نے واپس لے لیا۔اس کے بعد سے حکومت دو قدم آگے جانے کی بجائے پھر بظاہر تین قدم واپس لوٹ آئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟۔یہ سوال قبائلی علاقوں کے لیے مسلم لیگ (قاف) کے صدر اور مرکزی نائب صدر اجمل وزیر کے سامنے رکھا تو ان کا الزام تھا کہ فاٹا کو این ایف سی کے تحت جو اربوں روپے ملنے تھے وہ حکمراں جماعت نے اپنی جماعت کے اراکین پارلیمان کو خوش کرنے کے لیے بطور ترقیاتی فنڈز دے دیے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس کی وجہ سے اب قبائلی علاقوں کے لیے کچھ نہیں بچا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ قبائلی علاقے ایک مرتبہ پھر سیاست کی نظر ہوگئے۔حکومت کی جانب سے فاٹا اصلاحات میں تاخیر کی وجوہات تو سامنے نہیں آئی ہیں لیکن اس کا ریکارڈ کے لیے رسمی بیان یہی ہے کہ وہ اس کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے۔ حکومتی اراکین پارلیمان کا ماننا ہے کہ یہ اصلاحات مسلم لیگ (ن) ہی متعارف کروا کر تاریخ رقم کرے گی۔تاہم اصلاحات کے حق میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں خصوصا پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اگر مزید تاخیر ہوئی تو ضرب عضب کی کامیابیاں کھو دی جاسکتی ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ خلا ہمیشہ خلا نہیں رہتا بلکہ اسے کوئی نہ کوئی پر کرتا ہے۔ "اگر وقت پر اقدامات نہ ہوئے تو شدت پسندی لوٹ کر آسکتی ہے۔حکومت کی خاموشی ہر سیاسی جماعت کو قبائلی علاقوں پر اپنی سیاست چمکانے کا موقع دے رہی ہے۔ ایسے میں ایک متفقہ قومی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔اجمل وزیر اس منقسم سیاست کے بارے میں کہتے ہیں کہ خود قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان ایک پیج پر نہیں ہیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ انضمام کی صورت میں پارلیمان میں ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ پھر تو وہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہوں گے۔مبصرین کے خیال میں سینیٹ اور عام انتخابات تک
 اب فاٹا اصلاحات پر پیش رفت کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک پہلو شاید حکمراں جماعت نے نظر انداز کیا ہے اور وہ ہے اصلاحات سے اسے ممکنہ طور پر ملنے والا ایک بڑا سیاسی اور انتخابی فائدہ۔اصلاحات کے نتیجے میں اسے قبائلی علاقوں میں جوکہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہوسکتے ہیں آئندہ برس کے عام انتخابات میں کامیابی مل سکتی ہے۔ تو کیا یہ اسے اس بارے میں سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے؟۔ اے پی ایس